ابراہیم الحوثی کے قتل میں سعودی عرب ملوث
یمن کی وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ سید ابراہیم بدرالدین الحوثی کا قتل سعودی اتحاد کے ایجنٹوں نے کیا ہے۔
یمن کی قومی حکومت کی وزارت داخلہ نے جمعہ کو اعلان کیا ہے کہ سید ابراہیم بدرالدین الحوثی کو ان غداروں نے شہید کیا ہے جو سعودی اتحاد کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ سید ابراہیم بدرالدین الحوثی یمن کی عوامی انقلابی تحریک انصاراللہ کے سیکریٹری جنرل سید عبدالملک بدرالدین الحوثی کے بھائی تھے۔
یمن کے خلاف سعودی اتحاد کی جنگ 26 مارچ سنہ 2015ع کو شروع ہوئی تھی لیکن وقت گزرنے اور خاص طور سے رواں سال 26 مارچ کو پانچواں سال شروع ہونے پر محاذ جنگ اور سیاسی میدان میں اس جنگ کے توازن میں تبدیلی پیدا ہوگئی اور یمنی فوج اور عوامی رضاکار فورس نے ڈرون طیاروں اور اپنے میزائل استعمال کرکے سعودی عرب پر کاری ضربیں لگائی ہیں۔ دریں اثنا، سعودی اتحاد کے دو اصل ارکان میں سے ایک متحدہ عرب امارات نے اعلان کردیا ہے کہ وہ اپنے فوجیوں کو یمن سے نکال لے گا۔
سعودی عرب نے بھی حالیہ مہینوں میں یہ دیکھ لیا کہ اس کو جنگ یمن میں جنگی محاذوں کے ساتھ ساتھ سیاسی میدان میں بھی بھاری شکست کا سامنا ہوگا اور اس کی فوجی اور سیاسی آبرو بھی جاتی رہے گی۔ بنابریں، سعودی عرب یمن میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ مخالفین کے قتل کی گندی حرکت پر اتر آیا ہے۔
ادھر یمن کی سیکورٹی ایجنسیوں نے بھی کہا ہے کہ انہوں نے ایک گروہ کو گرفتار کیا ہے جس کا ابراہیم بدرالدین الحوثی کے قتل میں ہاتھ ہے۔ یمن کی سیکورٹی ایجنسیوں نے بتایا ہے کہ گرفتار شدہ گروہ کے افراد کا تعلق سعودی عرب کی خفیہ ایجنسی سے ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سعودی عرب کی خفیہ ایجنسی نے قتل کی پالیسی کے تحت ابراہیم بدرالدین الحوثی کا انتخاب کیوں کیا؟ ایسا لگتا ہے کہ اس کی سب سے بڑی وجہ بدرالدین الحوثی کے خاندان کا مقام و مرتبہ ہے۔ سید ابراہیم اور سید عبدالملک الحوثی کے والد علامہ سید بدرالدین طباطبائی الحوثی یمنی شیعوں کے رہنما تھے۔ ان کے بیٹے حسین بدرالدین الحوثی، جو سنہ 2004ع میں علی عبداللہ صالح کی حکومت کے خلاف لڑائی میں شہید ہوگئے تھے، ایران کے اسلامی انقلاب سے بہت زیادہ متاثر اور مغربی ایشیا میں امریکی موجودگی کے سخت مخالف تھے۔ اب سعودی اتحاد کے ایجنٹوں نے علامہ سید بدرالدین کے ایک اور بیٹے کو شہید کردیا ہے۔ سعودی عرب اور اس کے ایجنٹوں کا خیال ہے کہ وہ سید ابراہیم الحوثی کے قتل سے سید عبدالملک الحوثی اور یمن کے دیگر شیعوں کے عزم و ارادے میں خلل ڈال سکتے ہیں لیکن ان کو یہ پتہ نہیں ہے کہ شہادت شیعوں اور سید ابراہیم الحوثی جیسے کمانڈروں کی ایک عظیم آرزو ہے۔ اس سے پہلے سعودی اتحاد نے 30 نومبر سنہ 2015ع کو سید ابراہیم الحوثی کی شہادت کی افواہ پھیلائی تھی جس کی خود انہوں نے تردید کی تھی لیکن اس وقت انہوں نے کہا تھا کہ "شہاد میری سب سے بڑی آرزو ہے۔"
دوسری وجہ جنگ یمن میں 41 سالہ سید ابراہیم الحوثی کا کردار ہے۔ سید ابراہیم الحوثی نے ستمبر سنہ 2015ع میں دارالحکومت صنعا میں منصور ہادی کی حکومت سے وابستہ مسلح افراد کے ساتھ ہونے والی جنگ سمیت بہت سی جنگوں میں کمانڈر کا عہدہ سنبھال رکھا تھا جو منصور ہادی کے عدن فرار کا سبب بنا۔ بنا بریں، سعودی اتحاد نے اس یمنی کمانڈر کے قتل کو اپنے ایجنڈے میں شامل کرلیا۔
درحقیقت سید ابراہیم الحوثی کا قتل جنگ میں اس یمنی کمانڈر کی شجاعت و بہادری تھی لیکن جیسا کہ عوامی انقلابی تحریک انصاراللہ نے کہا ہے کہ یہ مذموم حرکت جارحین کے مقابلہ میں یمنی عوام کے عزم و ارادہ کی تقویت کا باعث بنے گی۔