میکرون اور پوتین کی ملاقات ، ایٹمی سمجھوتے کے تحفظ پر تاکید
ایمٹی سمجھوتے سے امریکہ کے نکلنے کے بعد فرانس اور روس نے ایک بار پھر ایٹمی سمجھوتے کے تحفظ پر تاکید کی ہے
اس سلسلے میں فرانس کے صدر امانوئل میکرون نے انیس اگست کو اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پوتین سے ملاقات میں کہا کہ ہم ایٹمی سمجھوتے کا احترام کرتے ہیں اور ہم نے علاقے میں کشیدگی دور کرنے کے لئے اقدام کئے ہیں - فرانس کے صدر نے اس سے پہلے اعلان کیا تھا کہ وہ روسی صدر سے ملاقات میں ایران کے ساتھ کشیدگی کم کرنے کے لئے شام کے تنازعہ اور اسلحہ کنٹرول سے متعلق مسائل کے بارے میں گفتگو کریں گے-
ایسا نظر آتا ہے کہ فرانس اور روس کی سب سے اہم مشترکہ تشویش ایٹمی سمجھوتے کا تحفظ اور خلیج فارس میں کشیدگی کم کرنا ہے کہ جو ایران کے خلاف واشنگٹن کے اقدامات کے نتیجے میں حالیہ مہینوں میں بیش از حد دباؤ کی پالیسی کے تناظر میں بہت زیادہ بڑہ گئی ہے- فرانس نے یورپی ٹرائیکا کے ایک رکن کی حیثیت سے ایٹمی سمجھوتے کے تحفظ کے لئے یورپی یونین کی روش کے مطابق حالیہ ہفتوں میں ایران اور امریکہ کے ساتھ صلاح و مشورے کئے ہیں- مئی دوہزاراٹھارہ میں ایٹمی سمجھوتے سے غیرقانونی طور پر امریکہ کے نکلنے کے بعد فرانس ، جرمنی ، برطانیہ اور یورپی یونین نے وعدہ کیا تھا کہ ایٹمی سمجھوتے میں ایران کے لئے مدنظر رکھے گئے مفادات کو پورا کیا جائے گا-
یورپی یونین اور یورپی ٹرائیکا ، ایٹمی سمجھوتے کو چند فریقی سمجھوتے کا ایک نمونہ سمجھتے ہیں جس نے بین الاقوامی سیکورٹی اور امن کے تحفظ میں کافی مدد کی ہے - یورپیوں کا خیال ہے کہ نہ صرف ایران نے ایٹمی سمجھوتے کے تناظر میں تمام معاہدوں پرعمل کیا ہے بلکہ ایٹمی سمجھوتہ اپنے اہداف کے حصول یعنی ایٹمی عدم پھیلاؤ اورعلاقائی و عالمی سطح پر کشیدگی و تنازعہ پیدا ہونے سے روکنے میں کامیاب رہا ہے- اسی بنا پر یورپیوں کی نظر میں ایٹمی سمجھوتہ ، یورپ کی سفارتی مہم کا کامیاب ماحصل شمار ہوتا ہے اور اس کی شکست بین الاقوامی سطح پر یورپی یونین کی سفارت کاری و سیاسی کامیابی کے لئے بہت بڑی ناکامی شمار ہوگی -
اس کے باوجود یورپ کا دعوی ہے کہ وہ تنہا اس سمجھوتے کا تحفظ نہیں کرسکتا- فرانس کی وزارت خارجہ کی ترجمان آگنس فونڈر مول کا کہنا ہے کہ : ایٹمی سمجھوتے کے تناظر میں ایران کے اقتصادی فوائد کا تحفظ صرف یورپ کی ذمہ داری نہیں ہے اور سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس پر عمل درآمد کی ذمہ داری عالمی برادری کی بھی ہے-
روس بھی ایٹمی سمجھوتے کو عالمی امن و ثبات کے لئے بہت اہم سمجھتا ہے اور اسی بنا پر اس کو باقی رکھنے کا مطالبہ کرتا ہے- ماسکو نے ایٹمی سمجھوتے میں یورپ کی کارکردگی پرتنقید کرتے ہوئے ایران کے جوابی اقدام کو جائز قرار دیا ہے- روس کے اعلی حکام کا خیال ہے کہ ٹرمپ حکومت کے ایٹمی سمجھوتے کے خلاف اقدامات اور ایران کے خلاف خاص طور سے تیل کے شعبے میں پابندیاں اور ایٹمی سمجھوتے کے یورپی فریقوں کی بےعملی نے حالات کو خراب کیا ہے-
روسی صدر ولادیمیر پوتین کا کہنا ہے کہ ایٹمی سمجھوتے سے واشنگٹن کا نکلنا ٹرمپ حکومت کے غلط اقدامات میں سے ایک ہے اور واشنگٹن کے باہر نکلنے کے بعد بھی اس سمجھوتے کو برقرار رکھنا کافی اہمیت رکھتا ہے-
روس کے اعلی حکام کا خیال ہے کہ ایران کے سلسلے میں امریکہ کا رویہ بین الاقوامی قوانین و معیارات کے پوری طرح برخلاف اور عالمی و علاقائی سیکورٹی کے خطرے میں پڑنے کا باعث ہے یہاں تک کہ اس سے محاذ آرائی اور جنگ کا خطرہ بڑھ سکتا ہے بنا بریں ایٹمی سمجھوتے کو درپیش بحرانی صورت حال کو ختم کرنے کے لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ نہ صرف امریکہ اس سمجھوتے میں واپس آئے بلکہ یورپی فریق بھی چاہے وہ یورپی ٹرائیکا ہو یا یورپی یونین جلد سے اپنے وعدوں پر عمل کے لئے آگے بڑھے اور اس سلسلے میں زیادہ لیت و لعل سے باز رہے-
روس کا خیال ہے کہ ایران کے ساتھ تجارت اور مالی لین دین کے نظام انسٹیکس کے بارے میں یورپ کے وعدوں پر عمل درآمد اور ایران کے ساتھ تجارت کے لئے ممالک کا اقدام ، بین الاقوامی سطح پر خاص طور سے ایران کے سلسلے میں امریکہ کے یکطرفہ اور زور زبردستی پر مبنی اقدامات کے مقابلے میں ڈٹے رہنے کے لئے ایک قدم ہے-
اس وقت میکرون اور پوتین کے درمیان ایٹمی سمجھوتے کے بارے میں صلاح و مشورہ ، اس سمجھوتے کو بچانے کی راہیں تلاش کرنے کے لئے گروپ چار جمع ایک کے مشرقی و مغربی گروہوں میں زیادہ سے زیادہ ہماہنگی و یکجہتی پر منتج ہوسکتا ہے-