ایران کے خلاف امریکہ کی نئی پابندیاں، زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی جاری رہنے پر تاکید
امریکہ نے ڈونلڈ ٹرمپ کے دورۂ صدارت میں، ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے اور اسی سلسلے میں ٹرمپ نے مئی 2018 میں ایٹمی معاہدے سے نکلنے کے بعد ایران کے خلاف پابندیاں شدید کردی ہیں- ان پابندیوں کے بے نتیجہ ہونے کے باوجود واشنگٹن بدستور، پابندیوں میں اضافے پر تاکید کر رہا ہے-
امریکی انتظامیہ نے اپنے تازہ ترین اقدام میں ، عراق میں امریکہ کے فوجی اڈوں پر سپاہ پاسداران کے میزائل حملے پر ردعمل میں ٹرمپ کے وعدے کو عملی جامہ پہنانے کی غرض سے، اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف نئی پابندیاں عائد کردی ہیں- امریکی وزارت خزانہ نے جمعہ دس جنوری کو ایک بیان میں تشخیص مصلحت نظام کونسل کے سیکریٹری محسن رضائی، سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے ڈپٹی کوآرڈینیٹر محمد رضا نقدی سمیت آٹھ عہدیداروں پر پابندی عائد کرنے کی خبردی ہے- اس پابندی کے مطابق مذکورہ عہدیداروں کا امریکہ میں داخلہ ممنوع ہوگا اور اس ملک میں ان کے اثاثے ضبط کرلئے جائیں گے- اسلامی جمہوریہ ایران نے بارہا امریکی پابندیوں کو ٹھکراتے ہوئے کہا ہے کہ ان پابندیوں کا ان کوئی خوف نہیں ہے- امریکہ کی وزارت خزانہ کے بیان میں ان عہدیداروں کے علاوہ، ایران میں سترہ کان کنی کی کمپنیوں اور دھاتوں کے ڈویلپر، چین میں موجود تین اداروں پر مشتمل نیٹ ورک اور ایرانی دھاتوں کی منتقلی میں سرگرم ایک پانی کا جہاز بھی پابندیوں میں شامل ہے- امریکی وزارت خزانہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ان پابندیوں کے اعلان کے ساتھ ہی ٹرمپ نے ایک حکم پر دستخط کئے ہیں، جس کا مقصد تہران کے مالی ذرائع و وسائل کو محدود کرنا ہے چنانچہ تعمیرات ، کان کنی ، ٹیکسٹائل کے شعبوں میں بھی تہران کے ساتھ اقتصادی تعاون پر پابندی عائد کردی ہے-
ٹرمپ نے بدھ آٹھ جنوری کو اپنی تقریر میں ایران کے میزائلی حملوں پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ، ایران کے بارے میں اپنے سابقہ دعووں کی تکرار کی تھی اور ایران کے خلاف نئی پابندیاں عائد کرنے کی بات کہی تھی- یہ پابندیاں ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کے دائرے میں عائد کی جار ہی ہیں- امریکہ نے بارہا کہا ہے کہ اس پالیسی کا مقصد تہران کے ساتھ ایک نئے معاہدے کا حصول ہے کہ جس میں امریکہ کے مدنظر تمام مسائل ذکر کئے جائیں- ٹرمپ انتظامیہ نے بارہا کہا ہے کہ وہ ایران کو اپنے سامنے جھکانے اور تسلیم ہونے کے لئے ایسی پابندیاں عائد کرے گا کہ جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ہے- امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپؤ نے جمعے کو ایک تقریر میں ان پابندیوں کا مقصد ایران کے رویے میں تبدیلی لانا بتایا ہے-
امریکی حکام تہران کے رویے میں تبدیلی کے تعلق سے اپنی غیرقانونی پابندیوں کے بے نتیجہ ہونے اور واشنگٹن کے مطالبات پورے نہ ہونے پر توجہ کئے بغیر ایران کے خلاف پابندیوں اور شدید دباؤ کی بات کر رہے ہیں- واشنگٹن کے دشمنانہ اقدامات کے باوجود ایران بارہا کہہ چکا ہے کہ وہ امریکہ کے سامراجی مطالبات کے سامنے جھکنے کے مقصد سے، کھبی بھی امریکی دباؤ کو قبول نہیں کرے گا-
ٹرمپ نے جنرل سلیمانی کو قتل کرنے کے بعد کہا تھا کہ، امریکہ سے سخت انتقام لینے کے بارے میں ایران نے اگر اپنا وعدے کو عملی جامہ پہنایا تو وہ ایران کے باون مقامات کو نشانہ بنائے گا- لیکن ایران کی انتقامی کاروائی کے بعد اس بہانے سے ایران کے میزائل حملوں میں کوئی امریکی فوجی مارا نہیں گیا اور بہت ہی کم نقصان پہنچا ہے اس لئے ایران کے خلاف پابندیاں مزید سخت کرنے کی بات پر ہی اکتفا کیا اور ایٹمی معاہدے میں شامل فور پلس ون گروپ کے اراکین سے بھی اس معاہدے سے نکل جانے کا مطالبہ کیا لیکن روس ، چین ، فرانس، جرمنی اور برطانیہ نے ایک آواز ہوکر ٹرمپ کے اس مطالبے کو ٹھکرا دیا اور اس طرح سے امریکہ کے متنازعہ صدر کو ایک بار پھر رسوائی کا منھ دیکھنا پڑا-
ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کہ جس کے پاس، ایران پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کے لئے کچھ ہے نہیں ، وقتا فوقتا ایران کے حکام اور اس کے مختلف اقتصادی شعبوں پر پابندیاں عائد کرتی رہتی ہے- یہ ایسے میں ہے کہ اب ایران کے خلاف مزید پابندیاں عائد کرنے کے لئے امریکہ کے پاس کچھ رہا نہیں ہے اور وہ ہر چیز پر پابندی عائد کرکے آزما چکا ہے- اسی لئے اس نے ان پابندیوں میں انسانی پہلوؤں کی مراعات کے بارے میں اپنے ماضی کے ظاہری دعووں کو بھی بالائے طاق رکھ دیا ہے اور آشکارا طور پر ایرانی عوام پر دباؤ ڈالنے کے لئے غذائی اشیاء اور دواؤں پر بھی پابندی لگآدی ہے- ایران کے خلاف امریکی پابندیوں میں ایک آشکارا انسانیت سوز پہلو یہ ہے کہ اس نے ایرانی عوام کے لئے حساس اور حیاتی دواؤں تک دسترسی، خاص طور پر مخصوص بیماریوں کی دواؤں پر بھی پابندی لگآ دی ہے- ان تمام تر سخت سے سخت پابندیوں کے باوجود ایران نے ان تمام پابندیوں کا مقابلہ کیا ہے اور نئی پابندیوں کا مرحلہ سر کرلیا ہے- چنانچہ عالمی بینک نیز بین الاقوامی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف نے اپنی حالیہ رپورٹوں میں اعلان کیا ہےکہ ایران کی معیشت پر ان پابندیوں کا اثر نہیں پڑا ہے اور ایرانی معیشت ، 2020 میں اپنی معمول کی حالت پر لوٹ سکتی ہے-