ایرانی عوام کی حمایت کا ٹرمپ کا جھوٹا دعوی
امریکہ نے اگرچہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد، اسلامی جمہوریہ ایران کے سلسلے میں ہمیشہ منفی اور دشمنانہ رویہ اپنایا ہے، اس کے ساتھ ہی امریکہ کے متنازعہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے، ایران اور اس ملک کے عوام کے ساتھ دشمنی میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے-
ٹرمپ اس وقت پوری بے حیائی کے ساتھ ایرانی قوم کی حمایت کا راگ الاپ رہا ہے- ٹرمپ نے ایسے میں کہ جب اس نے ایرانی عوام پر زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کے دائرے میں شدیدترین پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، اپنے ٹوئیٹر پیج پر مضحکہ خیز دعوی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ ایرانی عوام کے ساتھ ہیں- ٹرمپ نے ، حال ہی میں تہران کے مضافات میں یوکرین طیارے کا حادثہ رونما ہونے کے تعلق سے، تہران میں بعض مقامات پر ہونے والے احتجاجات کی حمایت میں ایرانی عوام کو مخاطب کرتے ہوئے فارسی زبان میں لکھا ہے کہ " میں اپنے دور صدارت کے آغاز سے ہی آپ لوگوں کے ساتھ کھڑا ہوں اور میری حکومت آپ کی حمایت جاری رکھے گی- ہم آپ کے احتجاجات پر پوری نظر رکھے ہوئے ہیں اور آپ کی شجاعت و ہمت کی داد دیتے ہیں-
امریکہ کے سابق صدر جیمی کارٹر سے لے کر اس کے بعد تک کے صدور نے ہمیشہ کسی نہ کسی طرح سے ایران کے ساتھ اپنی دشمنی کا اظہار کیا ہے- یہ دشمنانہ اقدامات ، ایران میں کودتا کے لئے زمین ہموار کرنے اور مسلط کردہ جنگ میں عراق کی بعثی حکومت کی انٹلی جنس اور لاجسٹیک مدد سے لے کر، حالیہ دنوں میں ایران سے براہ راست جنگ کرنے اور اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف پابندیاں عائد کرنے جیسے اقدامات پر مشتمل ہیں-
اس کے ساتھ ہی ٹرمپ نے اپنے اس دشمنانہ رویے کو نیا پہلو دیا، اور اسے اپنی انتہا کو پہنچا دیا ہے- ٹرمپ نے ایک غیرقانونی اور دہشت گردانہ اقدام میں ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کا براہ راست حکم دیا اور ان کو، اور ان کے ہمراہ آٹھ افراد کو عراق میں بغداد ایئرپورٹ کے قریب میزائل حملے میں شہید کردیا- ٹرمپ اور اس کی انتظامیہ کے دیگر افراد منجملہ وزیر خارجہ مائیک پمپؤ نے پوری بے شرمی و بےحیائی کے ساتھ اس بات کا دعوی کیا ہے کہ جنرل سلیمانی ایک دہشت گرد تھے نہ کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ہیرو تھے- اس کے ساتھ ہی ایران کے دسیوں لاکھ افراد نے جنرل قاسم سلیمانی اور ان کے ہمراہ افراد کی تشییع جنازہ میں شرکت کرکے یہ ثابت کردیا کہ ان کو ٹرمپ کے دعووں کی کوئی پرواہ نہیں ہے بلکہ انہوں نے ٹرمپ انتظامیہ کو ایک دہشت گرد انتظامیہ قرار دیا-
یہ ایسے میں ہے کہ معروف امریکی دانشور اور نظریہ پرداز، نوام چامسکی نے بھی ایران کی سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کو دہشت گردی قرار دیا ہے۔ ہندوستان ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے نوام چامسکی کا کہنا تھا کہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کا قتل دہشت گردی اور بین الاقوامی اصولوں اور قوانین کے منافی ہے۔ نوام چامسکی با رہا امریکی اقدامات کو عالمی امن و سلامتی کے لیے خطرہ قرار دے چکے ہیں۔ دوسری جانب امریکی ایوان نمائندگان کی رکن تلسی گیبرڈ نے سفارت کاری سے عدم توجہ کو ایران امریکہ کشیدگی میں اضافہ کی اصل وجہ قرار دیا ہے۔
امریکہ کے سخت انتقام پر ایران کی تاکید کے پیش نظر، ٹرمپ نے یہ دھمکی دی کہ اگر ایران نے کسی طرح کی انتقامی کاروائی کی تو وہ ایران کے ثقافتی مقامات سمیت باون مقامات پر حملہ کردیں گے- ٹرمپ کی اس دھمکی کا عالمی سطح پر وسیع ردعمل سامنے آیا اور یونسکو نے بھی اس دھمکی پر شدید ردعمل ظاہر کیا -
واشنگٹن نے اسی طرح زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کے دائرے میں، تہران کو اپنے مطالبات کے سامنے جھکانے کے لئے، ایران کے خلاف غیر معمولی پابندیاں عائد کردی ہیں اور گاہے بگاہے، نئی پابندیوں کا اضافہ کر رہا ہے- ٹرمپ انتظامیہ اس سے پہلے یہ دعوی کر رہی تھی کہ وہ ایران کے خلاف پابندیوں میں انسانی حقوق کے تحفظات کی رعایت کر رہی ہے لیکن اس وقت اس نے آشکارا طور پر ان تحفظات کو بالائے طاق رکھ دیا ہے- ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے اس امر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ امریکی صدر اقتصادی جنگ کی بات کہہ رہے ہیں کہا کہ میں اسے اقتصادی دہشت گردی کا نام دیتا ہوں کیوں کہ اس میں عام لوگوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے-
امریکہ کی وزارت خزانہ نے دسمبر 2019 میں اپنی ویب سائٹ پر اس بات اعتراف کیا تھاکہ ایران کی جہاز رانی کے شعبے پر پابندی عائد کرنے کا مقصد، ایران کے ساتھ انسان دوستانہ تجارت پر پابندی عائد کرنا ہے- اس سے پہلے تک امریکی حکام اس بات کے مدعی تھے کہ غذائی اشیاء اور دوائیں ان پابندیوں سے مستثنی ہیں - واشنگٹن نے اس وقت اپنے ظاہری دعوے کو بھی نظرانداز کردیا ہے اور آ شکارا طور پر ایرانی عوام کے خلاف دباؤ میں شدت لانے کے لئے کھانے کی چیزوں اور ادویات پر بھی پابندی عائد کردی ہے-