ایران کے خلاف ٹرمپ کے جنگی اختیارات محدود کرنے کے لئے امریکی ایوان نمائندگان میں دو بلوں کی منظوری
امریکی صدر ٹرمپ کے جنگ پسندانہ اور ایران مخالف اقدامات خاص طور پر سپاہ پاسداران کی قدس بریگیڈ کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے خلاف امریکی ایوان نمائندگان نے دو بلوں کی منظوری دے کر ایران کے خلاف ٹرمپ کے اختیارات کو محدود کردیا ہے-
پہلا مسودہ بل ، ایران کے خلاف جنگ اور عدم جارحیت کے قانون کے طور پر، ایران کے خلاف فوجی کارروائی کے لئے ضروری بجٹ کی فراہمی کو روکے جانے کے لئے ہے ۔ اس بل کے حق میں دو سو اٹھاسی ووٹ پڑے جبکہ مخالفت میں ایک سو پچہتر ووٹ ڈالے گئے - دوسرا مسودہ بل کیلیفورنیا کے ڈیموکریٹک پارٹی کے رکن باربارا لی نے پیش کیا تھا- یہ بل، دوہزار دو میں پاس کئے گئے بل کو منسوخ کرنے کے لئے پیش کیا گیا تھا کہ جسے ٹرمپ نے جنرل قاسم سلیمانی کو شہید کرنے کے لئے جواز کے طور پر استعمال کیا - دوہزار دو کے بل کو منسوخ کرنے کے لئے پیش کئے گئے نئے بل کے حق میں دو سو چھتیس ارکان نے ووٹ ڈالے جبکہ مخالفت میں ایک سوچھیاسٹھ ووٹ پڑے اور یوں نیا بل ایوان نمائندگان میں منظور کرلیا گیا-
امریکی ایوان نمائندگان کی سربراہ نینسی پلوسی نے ان بلوں کی منظوری کے بعد کہا کہ امریکی کانگریس کے اراکین کو ، اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ دشمنی نکالنے کے امریکی صدر کے فیصلوں اور ایران کے تعلق سے ان کے پاس کوئی اسٹریٹیجی نہ ہونے کے بارے میں بہت ٹھوس تشویش لاحق ہے- امریکی صدر ٹرمپ نے، ایران کے خلاف جنگ افروزی کے لئے امریکی صدر کے اختیارات کم کرنے اور قانونی پابندیاں عائد کرنے کے مسئلے پر شروع سے ہی اپنا ردعمل ظاہر کیا ہے اور اسے اپنے فیصلوں خاص طور پر ایران کے بارے میں فیصلوں کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا ہے-
ٹرمپ نے بدھ کو امریکی ایوان نمائندگان کی سربراہ نینسی پلوسی پر اس سلسلے میں الزام عائد کرتے ہوئے اشتعال انگیز لہجے میں امریکی عوام کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا: اپنے سپریم کمانڈر کی حمایت کیجئے- ڈموکریٹس یہ چاہتے ہیں کہ ایران جیسے ملکوں کے خلاف استقامت اور امریکہ کے دفاعی اقدامات کو امریکی صدور کے لئے مزید سخت بنادیں- واضح رہے کہ امریکی سربراہان مملکت دوہزار ایک کے بعد سے، نائن الیون کے واقعے کو اپنی جنگ پسندانہ اور مداخلت پسندانہ پالیسیوں کے لئے، خاص طور پر مغربی ایشیا کے علاقے میں ایک دستاویز اور حربے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں- اور عراق پر حملہ بھی اسی مسئلے کی تائید ہے-
درحقیقت گذشتہ اٹھارہ برسوں کے دوران امریکی حکام نے دوہزار دو کے بل کی بنیاد پرعلاقے میں اپنی جنگ پسندانہ پالیسیوں کو وسعت دی ہے چنانچہ امریکی انتظامیہ نے جنرل سلیمانی کے قتل کے جواز کے لئے بھی اسی بل کو بطور ثبوت پیش کرتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ جنرل سلیمانی، حملے کے وقت عراق میں موجود تھے، اس لئے امریکی حکومت، اس بل اور اجازت نامے کے تحت ان پر حملہ کرسکتی ہے- امریکی وزارت جنگ پنٹاگون کے اعلان کے مطابق اس ہوائی حملے کا حکم براہ راست خود امریکی صدر ٹرمپ نے دیا تھا-
جنرل سلیمانی کے قتل کے بعد امریکی حکام اور امریکی ایوان نمائندگان نے کہ جو ایران کے انتقام سے خوفزدہ تھے، ٹرمپ کو اس طرح کے اختیارات حاصل ہونے کے بارے میں خبردار کیا تھا اور ایوان نمائندگان سے صلاح و مشورے کے بغیر اس سے استفادے کو خطرناک بتایا تھا- اسی بنا پر ڈموکریٹس نمائندوں نے دوہزار دو کے بل کو منسوخ کرنے کے لئے اپنی کوششوں کا آغاز کیا تاکہ ایران کے ساتھ کسی فوجی لڑائی کے لئے کانگریس کے ساتھ صلاح و مشورہ کیا جائے-
ٹرمپ کی غیر منطقی پالیسیوں کے سبب ، ایران کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی میں اضافے نے امریکی حکام کو بہت زیادہ تشویش میں مبتلا کردیا ہے- اگرچہ امریکی ایوان نمائندگان نے کوشش کی ہے کہ ان دو بلوں کی منظوری کے ذریعے امریکی صدور کے ہٹ دھرمانہ اور غیر عاقلانہ اقدامات کا مقابلہ کریں لیکن ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ ٹرمپ خود کو ایک بے لگام طاقت تصور کر رہا ہے کہ جو کسی پابندی یا محدودیت کا تابع نہیں ہے- اس بناپر اس قسم کے بلوں کی منظوری اور ان پر عملدرآمد کے بارے میں بہت زیادہ شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں-