یہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کی انتہا ہے، مولانا ارشد مدنی
جمعیت علمائے ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے بی ایس پی کے رکن پارلیمان دانش علی کے ساتھ ہونے والے توہین آمیز سلوک کے بارے میں کہا ہے یہ جو کچھ ہوا اسے دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف یہ نفرت کی انتہا ہے جو اب جمہوریت کے ایوان تک جاپہنچی ہے۔
سحرنیوز/ہندوستان: ہندوستانی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق جمعرات کو پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس کے چوتھے دن لوک سبھا میں مسلم رکن پارلیمان، دانش علی کے ساتھ توہین آمیز سلوک اور دہشت گرد کہے جانے پر جمعیت علمائے ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے سخت ردعمل کا اظہار کیا اور اس رویے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملک کی جمہوری تاریخ میں ایک شرمسار کردینے والا پہلا واقعہ ہے۔
انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ پارلیمنٹ میں حکمراں پارٹی کے ایک ممبر کے ذریعہ جس طرح ایک مسلم ممبر پارلیمنٹ کے لئے غیر پارلیمانی زبان کا استعمال ہوا یہاں تک کہ اسے کھلے عام دہشت گرد اور دیگر انتہائی قابل اعتراض الفاظ کا استعمال اور پارلیمنٹ کے باہر دیکھ لینے کی دھمکی دی گئی یہ شرمناک اور جمہویت پر دھبہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پہلے بھی بہت سے مسائل پر پارلیمنٹ میں انتہائی گرماگرم اور تلخ بحثیں ہوتی رہتی تھیں لیکن کسی منتخب نمائندہ کے خلاف کسی دوسرے ممبر نے ایسے ناپاک اور غیر جمہوری الفاظ کا استعمال کبھی نہیں کیا۔
مولانا ارشد مدنی نے کہا ہے کہ حیرت اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ جب مذکورہ ممبر ایسی ناپاک اور غیر پارلیمانی زبان بول رہا تھا تو حکمراں جماعت کے کسی ممبر نے اسے نہیں روکا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ہیٹ اسپیچ نہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ تھی اور ایوان کے اسپیکر کو فوراً اس کا نوٹس لینا چاہیے تھا لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔
مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ اگر اپوزیشن کے کسی ممبر نے ایوان میں ایسی زبان کا استعمال کیا ہوتا تو اسے اسی وقت ایوان سے باہر نکال کر اس کے خلاف سخت ایکشن لیا جاتا اور الیکٹرانک میڈیا اس پر ایک طوفان کھڑا کر دیتا۔
انہوں نے کہا کہ ایک مسلم ممبر پارلیمنٹ کے خلاف اس طرح کی زبان کا استعمال یہ باور کراتا ہے کہ عام مسلمانوں کو تو جانے دیں اب مسلمانوں کے منتخب نمائندے پارلیمنٹ میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔
مولانا ارشد مدنی نے آخر میں کہا کہ اسپیکر کی یہ آئینی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ مذکورہ ممبر کے خلاف قانونی کارروائی کا حکم دیں۔