Jan ۱۵, ۲۰۲۴ ۱۲:۴۷ Asia/Tehran
  • اردو کے عالمی شہرت یافتہ شاعر منور رانا کا انتقال

ہم نہیں تھے تو کیا کمی تھی یہاں ہم نہ ہوں گے تو کیا کمی  ہوگی , اس معروف شعر کے خالق اور اردو کے عالمی شہرت یافتہ شاعر منور رانا کا اتوار کی دیر رات گئے لکھنؤ میں انتقال ہوگیا۔

سحر نیوز/ ہندوستان: اردو دنیا کے مشہور و معروف اور منفرد لب و لہجے کے شاعر منور رانا کا 71 سال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔ لکھنؤ کے پی جی آئی ہسپتال میں انہوں نے آخری سانس لی۔ وہ طویل عرصے سے بیمار تھے اور بتایا جاتا ہے کہ گردے اور دل سے متعلق عارضہ لاحق تھا۔ اطلاعات کے مطابق منور رانا طویل عرصے سے وینٹی لیٹرپرتھے۔

منور رانا 26  نومبر 1952 کو اترپردیش کے شہر رائے بریلی میں پیدا ہوئے تھے ، البتہ انہوں نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ مغربی بنگال کے دارالحکومت کولکاتا میں گزارا۔ منور رانا خاص و عام میں بے حد مقبول تھے۔ ان کے انتقال سے پوری اردو دنیا میں غم کی لہر ہے۔ منور رانا کے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ ایک فرزند اور چار بیٹیاں شامل ہیں۔

منور رانا نے ایک نظم ’ماں‘ کے عنوان سے بھی لکھی تھی جس کو بے حد پسند کیا گیا تھا اور صرف اردو دنیا میں ہی نہیں بلکہ ہندی اور دیگر زبانوں سے متعلق حلقوں میں بھی اس نظم کو داد ملی۔ 

منور رانا کو کئی ایوارڈ و اعزازات سے نوازا گیا جن میں سنہ 2014 میں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ خاص طور سے قابل ذکر ہے ، البتہ انہوں نے مسلمانوں کے ایشوز پر ساہتیہ اکادمی کا یہ قومی ایوارڈ بھی حکومت کو واپس کر دیا تھا۔ انہیں یوپی اردو اکادمی کا چیئرمین بھی بنایا گیا لیکن کچھ ہی دن بعد اس عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

منور رانا کے کچھ اشعار پیش خدمت ہیں:

جب بھی کشتی مری سیلاب میں آجاتی ہے

ماں دعا کرتی ہوئی خواب میں آ جاتی ہے

             کل اپنے آپ کو دیکھا تھا ماں کی آنکھوں میں

             یہ   آئینہ   ہمیں    بوڑھا     نہیں    بتاتا   ہے

مرے بچوں میں ساری عادتیں موجود ہیں میری

تو پھر ان بد نصیبوں کو نہ کیوں اردو زباں آئی

             تمہاری  آنکھوں  کی  توہین  ہے   ذرا سوچو

             تمہارا    چاہنے    والا     شراب    پیتا   ہے

تمہارا   نام  آیا  اور ہم   تکنے  لگے   رستہ

تمہاری یاد آئی اور کھڑکی کھول دی ہم نے

              سو جاتے ہیں فٹ پاتھ پہ   اخبار بچھا کر

             مزدور کبھی  نیند کی  گولی  نہیں کھاتے

           پھینکی نہ منورؔ نے  بزرگوں کی نشانی

           دستار پرانی ہے مگر باندھے ہوئے ہے

 

 

ٹیگس