سعودی عرب میں سیاسی کارکنوں کو سزائے موت، ایران کا اظہار تشویش
ایرانی عدلیہ کی اعلی انسانی حقوق کونسل نے سعودی عرب کی معروف سماجی خاتون کارکن اسرا الغمغام، ان کے شوہر اور تین دیگر خواتین کو موت کی سزا دینے کے لئے سعودی اٹارنی جنرل کی اپیل پر افسوس کا اظہار کیا ہے-
سعودی عرب کی انتیس سالہ معروف سماجی خاتون کارکن اسرا الغمغام کو دو ہزار پندرہ میں ان کے شوہر موسی الہاشم کے ہمراہ گرفتار کر لیا گیا تھا- ان پر یہ مضحکہ خیز الزام ہے کہ انہوں نے سعودی عرب کے مشرقی علاقے قطیف میں حکومت مخالف مظاہروں کا اہتمام کیا تھا- اسرا الغمغام اور ان کے شوہر، دو ہزار پندرہ سے اب تک جیل میں ہیں-
ایرانی عدلیہ کی اعلی انسانی حقوق کونسل نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اگر بنا یہ ہو کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی جائے تو سعودی حکام پہلے درجے کے ملزم قرار پائیں گے کیونکہ وہ علاقے کے لاکھوں بےگناہ شہریوں کے قتل عام کے ذمہ دار ہیں-
ایرانی عدلیہ کی اعلی انسانی حقوق کونسل کے بیان میں دہشت گرد گروہوں القاعدہ، داعش اور انقلاب دشمن منافقین کی دہشت گرد تنظیم ایم کے او اور علاقے میں سرگرم دیگر دہشت گرد گروہوں کے لئے سعودی عرب کی مالی اور اسلحہ جاتی حمایت کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سعودی حکومت کے کارنامے میں بڑے پیمانے پر مجرمانہ اقدامات شامل ہیں جن میں دو روز قبل یمن کے صوبہ الحدیدہ میں یمنی شہریوں کی گاڑیوں پر سعودی عرب کے تازہ ترین حملے کی طرف بھی اشارہ کیا جا سکتا ہے جس میں ستائیس بچے اور چار خواتین شہید ہوئی ہیں-
ایرانی عدلیہ کی اعلی انسانی حقوق کونسل نے اسی طرح سعودی عرب کے مشرقی علاقے قطیف کے مظلوم عوام اور سعودی عرب کے دیگر حق پرستوں پر کھلم کھلا مظالم کے نتائج کی بابت خبردار کرتے ہوئے بین الاقوامی اداروں خاص طور پر اقوام متحدہ اور اس کی انسانی حقوق کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس معاملے کا سنجیدگی کے ساتھ نوٹس لے-
بیان میں کہا گیا ہے کہ بلاشبہ امریکا اور بعض یورپی ممالک، سعودی عرب کے مظلوم شہریوں اور اسی طرح علاقے خاص طور پر یمن کے مظلوم عوام پر آل سعود حکومت کے مظالم میں برابر کے شریک ہیں اور انہیں اس کا جواب دینا ہو گا-