شام جا رہے آئیل ٹینکر کو روکنا، ایک قوم کا گلا گھونٹنے اور اس کی زندگی کو سخت کرنے کی کوشش، اس واقعے میں کیا ہے مصر کا کردار؟
آبنائے جبل الطارق میں برطانوی بحریہ نے پاناما کے پرچم کے ساتھ جا رہے سپر آئیل ٹینکر کو پکڑ لیا جس پر تین لاکھ ٹن ایرانی تیل لوڈ تھا ۔
یہ آئیل ٹینکر شام کے بانیاس پورٹ کی جانب جا رہا تھا۔ برطانیہ کا دعوی ہے کہ اس نے آئیل ٹینکر 2011 میں شام پر عائد پابندیوں کے تحت پکڑا ہے ۔
اسپن کے وزیر خارجہ جوزف بوریل نے کہا ہے کہ امریکا نے آئیل ٹینکر پکڑنے کا مطالبہ کیا تھا، اسپین حکومت اس نکتے کا مطالعہ کر رہی ہے کہ برطانوی بحریہ نے یہ قدم اٹھاکر اسپین کے اقتدار اعلی کی خلاف ورزی تو نہیں کی ہے ۔
دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سپر ٹینکر عراقی ہے لیکن امریکا کا کہناہے کہ یہ ایرانی ہے اور اس نے ایران کی ایک پورٹ سے تیل لوڈ کیا ہے ۔
ایران کا تین لاکھ بیرل تیل روزانہ چین جاتا ہے اور اس مقدار میں اضافہ ہو رہا ہے تاہم نہ امریکا اور نہ ہی برطانیہ کسی کے پاس بھی چینی تیل ٹینکر کا راستہ روکنے کی ہمت نہیں ہے ۔ یہی نہیں ترکی، ہندوستان یہاں تک کہ یورپی ممالک کے تیل ٹینکر وہ نہیں روک سکتے کیونکہ کافی نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے ۔
اس جہاز پر اگر ہتھیار لوڈ ہوتے اور اسے برطانیہ پکڑ لیتا تو بات سمجھ میں آنے والی تھی لیکن تیل کے بحران کا سامنا کر رہے شامی قوم کے لئے تیل لے جانے والے ٹینکر کو روک لیا جانا، تمام انسانی اقدار کی خلاف ورزی ہے ۔ شام پر جو پابندیاں عائد کی گئی ہیں یکطرفہ ہیں اس بارے میں اقوام متحدہ کی سطح پر کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے ۔
یہ بھی تو حیرت کی بات ہے کہ امریکا اور یورپی ممالک نے اپنے جنگی طیارے شام اور عراق کی سرحدوں پر بھیجے اور ساٹھ ممالک کا اتحاد بنایا ۔ اس اتحاد نے ان ٹرکوں اور ٹینکرز کو کبھی نہیں روکا جو داعش کا تیل لے کر جاتے تھے ۔ یہ تیل ترکی اور عراقی کردستان جایا کرتا تھا ۔
ہمیں افسوس ہے کہ مصر نے تیل لے کر شام جانے والے تیل ٹینکرز کو سویز نہر سے گزرنے سے روک دیا ہے ۔ اس نے یورپی یونین کی پابندیوں پر عمل کرتے ہوئے یہ قدم اٹھایا ہے حالانکہ یورپی یونین کی پابندیوں پر عمل کرنا اس کی ذمہ داری نہیں کیونکہ وہ یورپی یونین کا رکن نہیں ہے ۔ سویز نہر کا راستہ بند ہونے کی وجہ سے اس آئیل ٹینکر کر طویل راستہ طے کرنا پڑا ۔ یہیں سے مصر کا گناہ سامنے آتا ہے کہ وہ ایک قوم کے مسائل بڑھانے میں دلچسپی لے رہا ہے ۔
یہ طے ہے کہ برطانیہ کے اس قدم کے بعد خلیج فارس کے علاقے میں مزید کشیدگی پیدا ہوگی ۔
بشکریہ
رای الیوم
عبد الباری عطوان