ایران کے وزیرخارجہ کا امریکی عہدیدار کو جواب ( تفصیلی خبر)
اگر دوہزار اکیس دوہزار پندرہ نہیں ہے تو پھر یہ انیس سو پینتالیس بھی نہیں ہے!
ایران کے وزیر خارجہ نے امریکہ پر ایک بار پھر واضح کردیا ہے کہ تہران ایٹمی معاہدے پر دوبارہ مذاکرات نہیں کرے گا۔ یہ بات انہوں نے ایٹمی معاہدے کے حوالے سے امریکہ کی نامزد نائب وزیر خارجہ ونڈی شرمین کے تازہ بیان کا جواب دیتے ہوئے کہی۔
امریکہ کی نامزد نائب وزیرخارجہ ونڈی شرمین نے کانگریس میں بیان دیتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ خطے کے جیوپولٹک حالات تبدیل ہوگئے ہیں لہذا اب ہم ایران کے ساتھ موجودہ ایٹمی معاہدے سے بھی طویل المدت اور پائیدار معاہدہ چاہتے ہیں۔
ایران کے وزیرخارجہ ڈاکٹر محمد جواد ظریف نے ونڈی شرمین کے بیان کا جواب دیتے ہوئے ٹوئٹ کیا ہے کہ اگر دوہزار اکیس دوہزار پندرہ نہیں ہے تو پھر یہ انیس سو پینتالیس بھی نہیں ہے، لہذا اقوام متحدہ کا منشور تبدیل اور ویٹو کا حق ختم ہونا چاہیے جس سے امریکہ مسلسل ناجائز فائدہ اٹھاتا آیا ہے۔
وزیرخارجہ محمد جواد ظریف نے ایک بار پھر ایران کے اس موقف کا اعادہ کیا کہ ایٹمی معاہدے پر دوبارہ مذاکرات نہیں ہوں گے، انہوں نے امریکہ پر زور دیا کہ وہ ایٹمی معاہدے پرعملدرآمد کرے۔
ان دنوں بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے ایٹمی معاہدے کے بارے میں طرح طرح کے بیانات دیئے جارہے ہیں جن میں سنجیدگی دکھائی نہیں دیتی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ امریکی حکومت بھی ٹرمپ انتظامیہ کی شکست خوردہ پالیسی پر عمل کر رہی ہے۔
امریکہ کے سابق وزیر خارجہ ہنری کیسنجر نے بائیڈن انتظامیہ کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن اور اس کے اتحادیوں کے مفادات کا تقاضہ یہ ہے کہ ایران کے بارے میں ٹرمپ کی انتظامیہ کی زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی جاری رکھی جائے۔
ٹرمپ کے چار سالہ دورہ حکومت کے تجربے سے پتہ چلتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی امریکی مقاصد پورے نہیں کرسکی اور ایرانی عوام کی زیادہ سے زیادہ استقامت کی پالیسی کے سامنے ناکام ہوگئی۔ لہذا بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے اس پرعملدرآمد جاری رکھنا ایک اسٹریٹیجک غلطی ہوگی، کیونکہ ایران اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے بیرونی طاقتوں کی منشا اور خواہشات کا تابع نہیں ہے۔
ایران دوٹوک الفاظ میں اعلان کرچکا ہے کہ ایٹمی معاہدے میں امریکہ کی واپسی تمام پابندیوں کے خاتمے سے مشروط ہے لہذا سیاسی دباؤ اور دھمیکوں کے نتیجے میں صورتحال مزید پیچیدہ تو ہوسکتی ہے لیکن ایران کو اس کے اصولی موقف سے نہیں ہٹا سکتی ۔
ایران ایٹمی معاہدے میں موجود ہے اور اس نے اپنے وعدوں پر عمل بھی کیا ہے لہذا تہران سمجھتا ہے کہ پابندیوں کے خاتمے کے بغیر ایٹمی معاہدے میں امریکی واپسی کے لیے مذاکرات بے معنی اور غیر منطقی ہیں۔
تہران سمجھتا ہے کہ امریکہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ پابندیوں کے خاتمے اور عملی اقدامات کے بعد ایٹمی معاہدے میں واپس آئے کیونکہ یہ ایک حکومتی ذمہ داری ہے جس کی ٹرمپ انتظامیہ نے خلاف ورزی کرتے ہوئے ایٹمی معاہدے سے علیحدگی اختیار کی تھی۔ پابندیوں کا موثر طریقے سے خاتمہ ہی ایٹمی معاہدے میں امریکی واپسی کا روشن راستہ ہے اور اگر لازمی عزم موجود ہوتو پھر کسی بھی قسم کے مذاکرات کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔
ایران اور آئی اے ای اے کے درمیان طے پانے والے سہ ماہی معاہدے نے سفارت کاری کے لیے نیا موقع فراہم کردیا ہے جس کے دوران مغربی ممالک عملی اقدامات اور پابندیاں ختم کرکے، ایٹمی معاہدے کو مخدوش صورتحال سے باہر نکال سکتے ہیں۔
بہرحال ایران کی حکومت، پارلیمنٹ کے منظور کردہ قانون سے بہرہ مند ہے اور اگر یورپ نے آئندہ تین ماہ کے اندر اندر اپنے ایٹمی وعدوں پر عمل نہیں کیا تو ایران کی پرامن ایٹمی سرگرمیوں کی توسیع کا سلسلہ بھی اسی طرح جاری رہے گا۔