امریکہ کو ایران کی تجویز کا انتظار
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ ایٹمی معاہدے کے حوالے سے ایران کی تعمیری تجویز کی منتظر ہے۔
خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نڈ پرائس نے پیر کی شام ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ واشنگٹن ایٹمی معاہدے سے متعلق ہونے والے اجلاس میں شریک ہونے کی تجویز پہلے پیش کرچکا ہے لہذا اب ہم ایران کی جانب سے بقول ان کے تعمیری تجویز کا انتظار کر رہے ہیں۔
جب ایک صحافی نے ایران میں جدیدترین سینیٹری فیوج مشینوں کی تیسری چین کے ذریعے یورینیم افزودہ بنائے جانے کے بارے میں جوہری توانائی کے عالمی ادارے آئی اے ای اے کی تازہ رپورٹ کے تعلق سے بائیڈن انتظامیہ کا ردعمل جاننے کی کوشش کی تو نڈ پرائس کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر امریکہ کی تشویش میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز نے دعوی کیا ہے کہ جوہری توانائی کے عالمی ادارے آئی اے ای اے نے اپنی ایک رپورٹ میں جسے اس ایجنسی نے بھی دیکھا ہے، اس بات کی وضاحت کی ہے کہ ایران نے نطنز کی ایٹمی تنصیبات میں جدید ترین سینٹری فیوج مشنیوں کی تیسری چین کے ذریعے یورینیم کی افزودگی کا آغاز کردیا ہے۔
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ بائیڈن انتظامیہ نے پہلے ہی دن سے اپنے شرکا، اتحادیوں اور کانگریس کے ارکان سے ایٹمی معاہدے کے بارے میں صلاح و مشورے کا عمل شروع کردیا تھا۔ اگرچہ وائٹ ہاوس کا کہنا ہے کہ امریکہ ایران کے ساتھ ہونے والے جامع ایٹمی معاہدے میں واپس آنا چاہتا ہے جس سے ٹرمپ انتظامیہ نے واشنگٹن کو علیحدہ کرلیا تھا تاہم اس کی جانب سے کوئی عملی قدم تاحال نہیں اٹھایا گیا۔
دوسری جانب ایران کے پارلیمانی کمیشن برائے قومی سلامتی اور خارجہ تعلقات کے ڈپٹی چیئرمین عباس مقتدائی نے کہا ہے کہ یورپ اور امریکہ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ انہوں نے کئی برس سے جو لاحاصل مشق شروع کر رکھی ہے اس میں کامیابی ملنا ممکن نہیں۔
پارلیمانی نیوز ایجنسی سے بات چیت کرتے ہوئے عباس مقتدایی کا کہنا تھا کہ ایسی کوئی پابندی نہیں بچی جو ایران پر عائد نہ کی گئی ہو اور ایسا کوئی اقتصادی حربہ نہیں ہے جو تہران کے خلاف آزمایا نہ جاچکا ہو۔قومی سلامتی اور خارجہ تعلقات کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین نے کہا کہ مغرب کے بر خلاف ایران کے پاس فتح کے متعدد پتے موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یورپ جانتا ہے کہ ایران اور اس کے پڑوسی ہی اس گرین براعظم کی توانائی کی ضروریات پوری کرتے ہیں جبکہ خلیج فارس کے علاقے سے یورپ کی تجارت کو جو تحفظ حاصل ہے وہ بھی ایران کا مرہون منت ہے۔
عباس مقتدائی نے واضح کیا کہ خطے میں ایران کی طاقتور موجودگی ان کے مفاد میں ہے اور یورپ کو چاہیے کہ وہ ایران کو خطے کی ایک طاقت کے طور پر نظر انداز کرنے سے باز رہیں۔ قومی سلامتی اور خارجہ تعلقات کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین نے کہا کہ یورپ والے سمجھ چکے ہیں کہ ایران کی حکومت پارلیمنٹ کے منظور کردہ قانون پر عملدرآمد کے حوالے سے پوری طرح سنجیدہ ہے۔