ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں غلط بیانی سے کام لیا جا رہا ہے: ایران
ایران کے وزیر خارجہ نے مشترکہ ایٹمی معاہدے کے بارے میں مغربی ممالک کے حالیہ بیانات کے رد عمل میں کہا ہے کہ مغربی ممالک مشترکہ ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں ۔
فارس خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے اپنے ٹویٹ میں مشترکہ ایٹمی معاہدے کے بارے میں مغربی ممالک کے حالیہ بیانات کے رد عمل میں کہا کہ مغربی ممالک مشترکہ ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں اور حقائق کو نظر انداز کیا جارہا ہے جبکہ مغربی ممالک مجرم اور مظلوم (قاتل و مقتول) کی جگہ بدلنے کی کوشش کررہے ہیں۔
محمد جواد ظریف نے اپنے ٹویٹ میں جوہری معاہدے سے متعلق ایک دستاویز کو بھی پوسٹ کیا ہے جس میں 16 جنوری 2016 سے 25 مارچ 2021 تک جوہری معاہدے کے حوالے سے ہونے والے واقعات کا انگریزی زبان میں ذکر ہوا ہے اور اس میں جوہری توانائی کے عالمی ادارے نے واضح طور پر کہا ہے کہ ایران نے جوہری معاہدے پر مکمل طور پر عمل کیا ہے۔
اپنے ٹوئٹ ہینڈل میں ایران کے وزیرخارجہ ڈاکٹر محمد جواد ظریف نے بڑے واضح اور دو ٹوک الفاظ میں لکھا کہ
" جامع ایٹمی معاہدے کو بحال کرنے کی غرض سے جو اقدامات انجام پانے ہیں ان کے بارے میں بے انتہا غلط بیانی سے کام لیا جارہا ہے اور یہاں تک کہ قاتل اور مقتول کی جگہ تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔"
یاد رہے کہ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے ایٹمی معاہدے کے فریق تین یورپی ملکوں کے وزار خارجہ کے ساتھ حالیہ ملاقات کے بعد کہا ہے کہ ایٹمی معاہدے کی بحالی کے حوالے سے گیند اب ایران کے پالے میں ہے۔
انہوں نے دعوی کیا کہ ایٹمی معاہدے کے حوالے سے امریکہ اور یورپ کے نظریات میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے اور ایران اس سلسلے میں بالکل تعاون نہیں کر رہا ہے ۔
یورپی ٹرائیکا اور بائیڈن انتظامیہ کے وزرائے خارجہ کے تازہ موقف سے اس بات کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ فریقین پوری ہم آہنگی اور یکسوئی کے ساتھ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔
دوسرے یہ کہ یورپ اپنے فیصلوں میں آزاد نہیں ہے اور وہ امریکی منشا سے ہٹ کر ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھاتا حتی جس معاہدے کو وہ عالمی سفارت کاری کی سب سے بڑی کامیابی قرار دیتا آیا ہے، امریکی ایما کے بغیر اس کی بھی پابندی کرنا یورپ کے بس کی بات نہیں ہے۔
ایران کے وزیر خارجہ ڈاکٹر محمد جواد ظریف نے اپنے مذکورہ ٹوئٹ کے ساتھ ایٹمی معاہدے کی ٹائم لائن سے متعلق ایک لنک بھی منسلک کیا ہے۔
یہ ٹائم لائن، جو ایران کی وزارت خارجہ کی ویب سائٹ پر دیکھی جاسکتی ہے، سولہ جنوری دوہزار سولہ سے پچیس مارچ دوہزار اکیس تک، ایٹمی معاہدے کے حوالے سے پیش آنے والے واقعات پر مشتمل ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ کی مرتب کردہ ٹائم لائن میں،ایٹمی معاہدے کے خلاف کیے جانے والے ان اقدامات کی فہرست بھی بیان کی گئی ہے جو سابق امریکی صدر باراک اوباما کے دور میں اس معاہدے پر عملدرآمد کے پہلے دن سے شروع ہوئے اور پھر صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے بعد اب جوبائیڈن کے دور میں بھی جاری ہیں۔
پہلی ٹائم لائن کے مطابق، سولہ جنوری دوہزار سولہ کو ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد کے پہلے دن، عالمی ایجنسی آئی اے ای اے اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ ایران نے ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد مکمل کرلیا ہے۔
ٹائم لائن میں آگے چل کر ایران کے کلیدی اقدامات کا ذکر کیا گیا ہے جس میں ایٹمی پروگرام کو محدود کرنا اور معائنہ کاری میں اضافہ وغیر شامل ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران نے ایٹمی معاہدے سے امریکا کی غیر قانونی اور یک طرفہ علیحدگی نیز یورپی ملکوں کی جانب سے لیت و لعل کا سلسلہ جاری رہنے کے بعد، آئی اے ای اے کی نگرانی میں ایٹمی معاہدے پر مرحلہ وار عملدآمد روکنے کا آغاز کیا ہے۔