واحد راہ ایٹمی معاہدے میں واپسی ہے، امریکی سینیٹر
امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے سینیئر رکن کرس مورفی نے کہا ہے کہ ایران کے مقابلے میں ان کے ملک کے پاس واحد راستہ یہ ہے کہ وہ ایٹمی معاہدے میں واپس لوٹ آئے۔
امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے سینیئر رکن کرس مرفی نے بین الاقوامی ایٹمی معاہدے میں امریکہ کی واپسی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی نظر میں امریکا کے سامنے اب صرف ایک راستہ ہے اور وہ یہ ہے کہ ایٹمی معاہدے میں واپسی کی جائے۔
ان کا یہ بیان جمعرات کی شام اس خبر کے بعد سامنے آیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ امریکی سینیٹ کی مختلف کمیٹیوں کے سربراہوں نے ایٹمی معاہدے کے بارے میں ویانا مذاکرات سے متعلق امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے ساتھ خفیہ میٹنگ میں تبادلہ خیال کیا ہے۔
اس میٹنگ کے بعد امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کے ایک اور سینیئر رکن باب مینندز نے بین الاقوامی ایٹمی معاہدے سے امریکہ کی غیر قانونی علیحدگی کی طرف کوئی اشارہ کئے بغیر کہا ہے کہ ایٹمی معاہدے میں امریکہ کی جلد واپسی کا امکان نظر نہیں آتا۔
یاد رہے کہ امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے سینیئر رکن کرس مرفی نے ایران کے خلاف امریکہ کی سابق حکومت کی زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کی شکست کا بارہا اعتراف کیا ہے اور امریکی صدر جو بائیڈن سے ایٹمی معاہدے میں فوری واپسی کا مطالبہ کیا ہے۔
اسی کے ساتھ امریکہ اور یورپ کے متعدد سابق و موجودہ حکام کا کہنا ہے کہ امریکی حکومت کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہیں کہ وہ ایٹمی معاہدے میں واپسی کرے۔
اسی اثنا میں امریکہ کے سابق وزیر خارجہ مائک پوپیؤ نے بدھ کے روز ایک بار پھر ایران پر جھوٹے الزامات عائد کرتے ہوئے ایٹمی معاہدے میں واشگٹن کی آئندہ واپسی کو احمقانہ اقدام قرار دیا ہے۔
واضح رہے کہ بین الاقوامی ایٹمی معاہدہ چودہ جولائی دو ہزار پندرہ کو ویانا میں ایران، یورپی یونین اور گروپ پانچ جمع ایک کے درمیان ہوا تھا جس میں امریکہ، برطانیہ، فرانس ، روس، چین اور جرمنی شامل تھے۔
مگر امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرپ نے آٹھ مئی دو ہزار اٹھارہ کو اس بین الاقوامی معاہدے سے کہ جس کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے توثیق بھی کی تھی، یکطرفہ طور پر علیحدگی اور ایران کے خلاف پابندیوں کی بحالی کا اعلان کر دیا ۔
ٹرمپ نے اسی کے ساتھ ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی پر عمل شروع کردیا جس کے اہداف حاصل کرنے میں انہیں ناکامی کا ہی سامنا کرنا پڑا ۔ امریکہ کے موجودہ صدر جوبائیڈن نے اقتدار میں آنے سے قبل اور اقتدار میں آنے کے بعد بھی بارہا یہی کہا ہے کہ امریکہ ویانا مذاکرات کے تحت ایٹمی معاہدے میں واپس آنے کے لئے تیار ہے ۔ ان کی انتظامیہ نے بھی بارہا اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی ناکام ثابت ہوئی ہے مگر امریکہ کی موجودہ حکومت نے اب تک بین الاقوامی ایٹمی معاہدے میں واپسی کے لئے کوئی موثر عملی اقدام انجام نہیں دیا ہے۔