تجزیہ نگاروں اور بیرون ملک تعینات سفیروں سے وزیرخارجہ ایران کا خطاب
ایران کے وزیر خارجہ نے ایرانی تجزیہ نگاروں اہل قلم اور بیرون ملک تعینات ایرانی سفیروں کے اجلاس میں ایران کی خارجہ پالیسی کی وضاحت کی اور ایٹمی معاہدے کے تعلق سے ایران کے شفاف اور دو ٹوک موقف کا اعلان کیا۔
ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے ایرانی تجزیہ نگاروں، اہل قلم حضرات یونیورسٹی اساتذہ، ذرائع ابلاغ کے نمائندوں اور بیرون ملک تعینات ایران کے سفیروں سے اپنے خطاب میں حکومت ایران کی خارجہ پالیسی پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔
انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی ایٹمی معاہدے سے امریکہ کی یکطرفہ اور غیر قانونی علیحدگی اور یورپی فریق ملکوں کی جانب سے اپنے وعدوں پر عمل نہ کئے جانے کے باوجود ویانا مذاکرات میں ایران کی شمولیت کے بارے میں تہران کی نیک نیتی سب پر ثابت ہے۔ انہوں نے ساتھ ہی امریکہ کی یکطرفہ، غیر قانونی اور ظالمانہ پابندیوں کو ختم کرانے کے لئے ایران کی جانب سے دوبارہ مذاکرات شروع کئے جانے کے سلسلے میں مکمل وضاحت کی۔
ایران کے نائب وزیر خارجہ اور سینیئر ایٹمی مذاکرات کار علی باقری کنی نے بھی ایران کی جانب سے اب تک اپنائے جانے والے مواقف اور اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے ان مذاکرات کے بارے میں ایران کی پالیسیوں پر روشنی ڈالی۔
اس موقع پر اجلاس میں شریک شخصیات نے بھی موضوع کے حوالے سے اپنے نظریات پیش کئے اور اس قسم کی نشستیں اور اجلاس جاری رکھے جانے کے بارے میں اپنی تجاویز پیش کیں۔
ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے جمعے کے روز انسٹا گرام پر اس جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ ایران ماضی کے مذاکرات میں تعطل کے مرحلے میں اب رکا نہیں رہنا چاہتا، کہا تھا کہ مقابل فریق اگر سنجیدگی کے ساتھ اور مثبت زاویے سے ویانا مذاکرات دوبارہ شروع کرتے ہیں تو مختصر مدت میں ایک بہتر سمجھوتے کا حصول ممکن ہے۔
ایران اور گروپ چار جمع ایک کے ویانا مذاکرات، انتیس نومبر کو شروع ہونے والے ہیں۔ امریکہ کے موجودہ صدر جوبائیڈن اور ان کی انتظامیہ نے حالیہ مہینوں کے دوران صراحت کے ساتھ ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسیوں کی شکست کا اعتراف کیا ہے اور ان کا دعوا ہے کہ امریکہ بین الاقوامی ایٹمی معاہدے میں واپس لوٹنا چاہتا ہے مگر اب تک اس معاہدے میں امریکہ کی واپسی کے لئے انھوں نے کسی بھی قسم کے موثر اقدامات انجام نہیں دیئے ہیں۔
ایٹمی معاہدے میں امریکہ کی واپسی کے طریقۂ کار کے بارے میں ویانا میں اب تک مذاکرات کے چھے دور انجام پا چکے ہیں۔ ان مذاکرات میں اختلاف کی ایک وجہ ایران کے خلاف ٹرمپ دور حکومت میں ایٹمی معاہدے سے امریکہ کی علیحدگی کے بعد عائد جانے والی پابندیوں میں سے بعض پابندیوں کو باقی رکھنے پر امریکہ کا اصرار ہے۔ علاوہ ازیں امریکہ کی جوبائیڈن انتظامیہ نے اعلان کیا ہے کہ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی کہ امریکہ مستقبل میں کبھی اس معاہدے سے علیحدہ نہیں ہو گا۔
امریکہ کے اس وقت کے صدر ٹرمپ نے آٹھ مئی دو ہزار اٹھارہ کو یکطرفہ اور غیر قانونی طور پر بین الاقوامی ایٹمی معاہدے سے امریکہ کی علیحدگی کا اعلان اور ایران کے خلاف پابندیوں کے نفاذ اور زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسیاں اختیار کیں۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے ایک ذمہ دار ملک کی حیثیت سے اعلان کیا ہے کہ امریکہ نے بین الاقوامی ایٹمی معاہدے سے علیحدگی کا اعلان کر کے اقوام متحدہ کی قرارداد بائیس اکتیس کی خلاف ورزی کی ہے اس لئے اسے ہی پابندیوں کو ختم کر کے ایٹمی معاہدے میں واپس لوٹنا ہو گا اور اس سلسلے میں اسے حقیقی عملی اقدامات عمل میں لانا ہوں گے۔
البتہ تہران اس بات پر تاکید کرتا رہا ہے کہ ایٹمی معاہدے میں امریکہ کی واپسی میں اسے کوئی جلدی نہیں ہے۔