ویانا مذاکرات کے نتائج سے ہٹ کر پائیدار اقتصادی ترقی کی راہ طے کریں گے، وزیرخارجہ
ایران کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی میں ایشیا کو فوقیت حاصل ہے اور ہم ویانا مذاکرات کے نتائج پر توجہ دیے بغیر پائیدار اقتصادی ترقی کی راہ طے کریں گے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے ہفتے کے روز تہران میں بیرون ملک ایران کے سیاسی نمائندہ دفاتر کے سربواہوں کے ساتھ منعقدہ ایک نشست میں کہا ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی میں پڑوسی ملکوں کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت کی خارجہ پالیسی میں متوازن خارجہ پالیسی، فعال و پائیدار اور اسمارٹ ڈیپلومیسی ہی ہمارا نعرہ ہے اور حکومت کا چار سالہ منصوبہ بھی ان ہی اصولوں کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے۔
وزیر خارجہ امیر عبداللہیان نے کہا کہ ایران کی وزارت خارجہ کا مشن ملک کے خلاف پابندیوں کو غیر موثر بنانے کے ساتھ ساتھ ان پابندیوں کو ختم کرانا ہے اور اس سلسلے میں انقلابی و جہادی طریقہ اختیار کئے جانے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ ہماری خارجہ پالیسی میں ایشیا کو فوقیت حاصل ہے اور ہم ویانا مذاکرات کے نتائج پر توجہ دیے بغیر پائیدار اقتصادی ترقی کی راہ طے کریں گے۔
وزیرخارجہ نے کہا کہ بیرون ملک تمام ایرانیوں کو اعلان کردہ اصول پر اپنی کوششیں مرکوز رکھنے کی ضرورت ہے اور ایران کے خلاف ظالمانہ اور غیر قانونی پابندیوں کو ختم کرانا ہی ان کا نصب العین ہونا چاہئے۔ان کا کہنا تھا کہ صدر مملکت کی قیادت میں بیرون ملک ایرانی کونسل کا اجلاس عنقریب تشکیل پائے گا اور امید کی جاتی ہے کہ اس اجلاس میں ملک سے باہر ایرانیوں کی حمایت کے قانون کو منظوری دی جائے گی۔
دوسری جانب ایران کی پارلیمنٹ کی پریزائیڈنگ کمیٹی کے رکن علی کریمی فیروزجائی نے کہا ہے کہ ہر قیمت پر ایٹمی سمجھوتہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا اور نئے سمجھوتے کے لئے ایرانی قوم کے مفادات کا ضامن ہونا ضروری ہے۔انھوں نے ہفتے کے روز ارنا کے نمائندے سے گفتگو میں ویانا مذاکرات میں ملک کے پائیدار مفادات کا تحفظ کئے جانے کی ضرورت پر تاکید کی اور کہا کہ ایران ان مذاکرات میں صرف ظالمانہ پابندیوں کا خاتمہ کرانے کے لئے شامل ہوا ہے۔ایران کی پارلیمنٹ کی پریزائیڈنگ کمیٹی کے رکن علی کریمی فیروزجائی نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر بنائی جانے والی پالیسیوں میں نئے حقائق کی بنیاد پر منطقی توجہ دی جانی چاہئے اور ویانا میں جاری مذاکرات میں بھی حکومت کی توجہ ایرانی قوم کے مسلمہ حقوق کی بحالی پر مرکوز رہنی چاہئے۔ ساتھ ہی مقابل فریق کی وعدہ خلافی کا بھی خاتمہ ہونا چاہئے۔انھوں نے ویانا میں ایران کے مذاکرات کاروں کی صلاحیتوں اور توانائیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایران کی نئی حکومت، معاہدے کے مثبت و منفی نکات پر توجہ اور مکمل حمایت کے ساتھ ویانا مذاکرات میں شامل ہوئی ہے اور ایران کا خیال ہے کہ جوہری حقوق تسلیم شدہ بین الاقوامی قانون کے مطابق ایران کے قومی و سماجی سرمائے کی حیثیت رکھتے ہیں اور امریکہ سمیت دنیا کی کوئی بھی طاقت ان حقوق کو ایران کی دسترس سے خارج نہیں کر سکتی۔ انہوں نے بین الاقوامی ایٹمی معاہدے سے امریکہ کی غیر قانونی و یکطرفہ علیحدگی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ قانونی طور پر امریکہ اس وقت ایٹمی معاہدے کا فریق نہیں ہے اور اسے اس معاہدے کی رکنیت دوبارہ حاصل کرنے کے لئے تمام نقصانات کی تلافی اور خلاف ورزیوں کا ازالہ کرنا ہو گا۔