ویانا میں ایٹمی معاہدے کے مشترکہ کمیشن کی چوتھی نشست
ویانا مذاکرات کے ساتویں دور میں ایٹمی معاہدے کے مشترکہ کمیشن کی ساتویں نشست جمعے کو کوبرگ ہوٹل میں منعقد ہوئی۔
ویانا سے موصولہ خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ مذاکرات کاروں کے نظریات ایک دوسرے سے قریب ہوتے جا رہے ہیں۔
ویانا میں ایران کے سینیئر مذاکرات کار علی باقری کنی کے گروپ چار جمع ایک یعنی روس، چین، برطانیہ اور فرانس نیز جرمنی کے ساتھ مذاکرات کے نتائج کے بارے میں ہونے والی نشست کا بیان قابل غور ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ مقابل فریق نے ایران کی پیش کردہ تجاویز پر مشتمل دونوں دستاویزات کو مذاکرات کی بنیاد کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے۔
ایران کے نائـب وزیر خارجہ اور سینیئر ایٹمی مذاکرات کار علی باقری کنی نے کہا ہے کہ سمجھوتے کے حصول میں تیزی آنے کا دارومدار اب مقابل فریق پر ہے۔
یورپی یونین کے خارجہ امور کے نائـب سربراہ اور ایٹمی معاہدے کے مشترکہ کمیشن کے کوآرڈی نیٹر نے بھی ایٹمی معاہدے کے مشترکہ کمیشن کے جمعے کے روز کی نشست کے بعد ایک بیان میں کہا ہے کہ ایٹمی معاہدے کے فریق ملکوں نے ایران کے خلاف پابندیوں کے خاتمےسے متعلق مذاکرات کے لئے مشترکہ متن سے اتفاق کر لیا ہے۔
انریکے مورا نے اعلان کیا ہے کہ یہ مشترکہ متن پابندیوں کی منسوخی کے لئے ایران اور گروپ چار جمع ایک کے درمیان مذاکرات میں پیش کی جانے والی مختلف تجاویز اور نظریات کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے۔
انھوں نے امید ظاہر کی کہ ایران کے خلاف پابندیوں کے خاتمے کے لئے مذاکرات آئندہ چند ہفتے میں نتیجہ خیز ثابت ہوں گے۔
ایٹمی معاہدے کے فریق تینوں یورپی ملکون نے بھی ایک بیان میں ایران کے ساتھ مذاکرات کے لئے اپنی آمادگی کا اظہار کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ گزشتہ چوبیس گھنٹے کے دوران ویانا مذاکرات میں تکنیکی پیشرفت حاصل ہوئی ہے۔
اس سے قبل ایٹمی معاہدے کے فریق ان ہی یورپی ملکوں کے سفارتکاروں نے پابندیوں کے خاتمے کے لئے ممکنہ مذاکرات کی تاریخ ستائیس دسمبر ہونے کی خبر دی تھی۔
ایران کے خلاف امریکہ کی ظالمانہ پابندیوں کے خاتمے کے لیے ویانا مذاکرات کا نیا دور انتیس نومبر سے شروع ہوا ہے۔
مذاکرات کے اس دور میں ایران کی مذاکراتی ٹیم نے گزشتہ ہفتے پابندیوں کے خاتمے اور ایٹمی اقدامات کے بارے میں اپنی مرتب کردہ تجاویز چار جمع ایک گروپ کے ارکان کو پیش کی تھیں۔
چارجمع ایک گروپ کے رکن ملکوں جرمنی، فرانس، برطانیہ، روس اور چین کے مذاکراتی وفود نے ایران کی پیش کردہ تجاویز پر غور کے لیے وقت مانگا تھا اور ضروری صلاح و مشورے کے لیے اپنے ملکوں کو واپس لوٹ جانے کی درخواست کی تھی۔
قابل ذکر ہے کہ ایران نے ایک ذمہ دار ملک کی حیثیت سے ہمیشہ اپنے فرائض پر عمل کیا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ امریکہ ہی ایٹمی معاہدے سے علیحدہ ہوا ہے اور اس نے ہی اس بین الاقوامی معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے اس لئے اسے ہی پابندیاں ختم اور ایٹمی معاہدے پر مکمل طور پر عمل کر کے اس معاہدے میں دوبارہ شامل ہونا پڑے گا۔