صیہونی جاسوس احمد رضا جلالی کی حقیقت جانیئے
احمد رضا جلالی ایران میں صیہونی خفیہ ایجنسی موساد کا ایک سرگرم عمل جاسوس تھا جس کے بارے میں ایران کی انٹیلیجنس نے پتہ لگا کر اُسے اپریل ۲۰۱۶ میں گرفتار کیا۔ جلالی اس وقت جیل میں ہے اور اُسے عدالتی کاروائی کے بعد سزائے موت سنائی جا چکی ہے۔
طبی شعبے میں اپنی تعلیم کا سلسلہ مکمل کرنے کے بعد یہ شخص ایران کی وزارت صحت کے کرائسز ہیڈکواٹر میں ایک ملازم کے طور پر اپنے کام کا آغاز کرتا ہے۔
احمد رضا جلالی کو ایران کی قومی سلامتی کے خلاف اقدامات کرنے کے سنگین الزامات کا سامنا رہا۔ یہ شخص اپنی ملازمت کی کیفیات کے پیش نظر وزارت دفاع کے ساتھ ایک مشترکہ پروجیکٹ میں شامل ہوا ہے اور پھر اُس پروجیکٹ کے مکمل ہونے کے بعد اُس نے وزارت دفاع کے ایک دوسرے اہم اور حساس تحقیقاتی مرکز میں اپنی سرگرمیوں کا آغاز کرتا ہے۔
احمد رضا جلالی ایران کے متعدد وزارتخانوں کے ساتھ اپنے تعاون کے دوران، ایران سے باہر نکل جاتا ہے اور پھر دوبارہ ایک نئی شکل میں ایران کے ساتھ رابطے کی کوشش کرتا ہے۔ جلالی در حقیقت ایک یورپی ملک میں اپنے ایک تعلیمی اور تحقیقاتی منصوبے کے دوران صیہونی خفیہ ایجنسی موساد کے جال میں پھنس گیا اور پھر اُس کے ساتھ باضابطہ طور پر اپنے تعاون کا آغاز کیا۔
اس کے بعد موساد نے جلالی سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے اہل خانہ کو ایران سے باہر منتقل کر دے اور ساتھ ہی وہ ایران میں اپنے سابقہ رکارڈ سے اُسے آگاہ کرے۔ اس مرحلے میں موساد نے جلالی کو اچھی طرح جانچنے پرکھنے کے بعد اُس کی جانب سے مطمئن ہونے کی کوشش کی اور اُس کے بعد اُس نے جلالی کو مرحلہ وار اپنے مقاصد کے لئے ایران میں استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
احمد رضا جلالی نے یہ اعتراف کیا ہے کہ موساد کے افسروں کے ساتھ اُسکی میٹنگیں ہوتی تھیں جن میں بالعموم ایران کے اُن دفاعی منصوبوں کے بارے میں گفتگو ہوتی تھی جن میں وہ شہید شہریاری اور شہید علی محمدی جیسے دانشوروں کے ساتھ موجود تھا۔
جلالی سے موساد کا اہم ترین مطالبہ یہ تھا کہ وہ ایران کی ایٹمی صنعت سے جڑے سائنسدانوں کے بارے میں اُسے معلومات فراہم کرے۔ موساد نے جلالی سے مطالبہ کیا کہ وہ ایران میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے ایران میں جاری سائنسی منصوبوں میں سرگرم عمل دانشوروں کے بارے میں معلومات فراہم کر کے انکی درجہ بندی کرے۔
اس مرحلے پر آکر جلالی کو یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ اب اُسے ایک خفیہ ایجنسی کے جاسوس کے طور پر عمل کرنا ہوگا۔
موساد کے افسروں کے ساتھ احمد رضا جلالی کی پچاس سے زائد ملاقاتیں ہوئی ہیں جن میں ہر بار اُسے کچھ رقم بھی دی جاتی تھی۔ اسکے علاوہ موساد نے جلالی سے ایک یورپی ملک کی شہریت دلانے کا بھی وعدہ کیا تھا۔
جلالی نے ایران کے معروف اور بڑے ایٹمی سائنسدانوں اور دانشوروں منجملہ شہید شہریاری اور شہید علی محمدی کے بارے میں معلومات فراہم کیں تاکہ اُن کو ٹارگٹ کرنے کی سازش کو موساد عملی جامہ پہنا سکے۔ اُس معلومات میں انکے مکانات کا پتہ، انکے کام کرنے کی جگہ اور رفت و آمد کے اوقات جیسے مسائل شامل تھے۔
ایک قابل غور بات یہ کہ احمد رضا جلالی کے پاس سویڈن میں وقتی طور سے رہائش کا پرمٹ موجود تھا اور وہ اسی ملک میں موساد کا رکن بنا۔ پھر جب ایران کی انٹیلیجنس نے اُسے گرفتار کیا تو خودساختہ صیہونی حکومت کی درخواسپت پر سویڈن نے اُس کے لئے رہائش کا دائمی پرمٹ جاری کر دیا اور پھر ایران کی عدالت میں جلالی کو سزائے موت سنا دئے جانے کے بعد سویڈن نے اُسے اپنی شہریت دینے کا بھی اعلان کر دیا۔
ایران کی عدلیہ کے ترجمان ذبیح اللہ خدائیان نے گزشتہ روز یہ اعلان کیا ہے کہ صیہونی حکومت کے لئے جاسوسی کرنے والے احمد رضا جلالی کو سنائی جانے والی سزائے موت کے حکم پر قطعی طور پر عمل کیا جائے گا۔