رہبرانقلاب اسلامی کے پیغام حج کی علاقے اور عالم اسلام میں مقبولیت و اہمیت
حجاج بیت اللہ الحرام کےنام رہبرانقلاب اسلامی کے سالانہ پیغام کو علاقے اور عالم اسلام میں انتہائی اہمیت کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے جس میں آپ فرمایا ہے کہ فلسطین کا میدان اس حیرت انگیز حقیقت کی ایک جلوہ گاہ ہے جس نے تخریب کار صیہونی حکومت کو جارحانہ انداز اور شرانگیزی کی حالت سے نکال کر دفاعی پوزیشن اور پسپائی کی حالت میں لا کھڑا کیا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے سالانہ پیغام حج میں آیا ہے کہ خطے میں امریکا اور اس کے مجرم ساتھی یعنی غاصب صیہونی حکومت کی پریشانی اور ناکامیوں کو فلسطین، لبنان، شام، عراق، یمن اور افغانستان کے واقعات میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
امر واقع یہ ہے کہ سابق سویت یونین اور کمیونیزم کے زوال کے بعد امریکہ کی سرکردگی میں قائم مغربی بلاک نے اس بات کی بھرپور کوشش کی کہ لبرل ازم اور سرمایہ دارانہ نظام اور اقدار کو دنیا بھر کی اقوام کے لیے واحد آپشن اور کامیاب ماڈل کے طور پر پیش کیا جائے۔ مغربی دنیا نے عسکری، سیاسی، اقتصادی، ثقافتی اور ابلاغیاتی ذرائع سے کام لیتے ہوئے اس سوچ کو دنیا پر مسلط کرنے اور اسے فروغ دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ لیکن بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ حالیہ برسوں کے دوران واحد سپر پاور کے طور پر امریکہ کی بالادستی زوال سے دوچار ہوئی ہے اور آج وہ اپنی مرضی اور منشا دوسرے ملکوں پر مسلط کرنے کے قابل نہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران پر دباؤ ڈالنے میں امریکہ اور اس کے دیگر اتحادیوں منجملہ غاصب صیہونی حکومت کی شکست اور اسی طرح شام، عراق، لبنان، فلسطین، افغانستان اور یمن کے واقعات میں اس کی سیاسی اور عسکری ناکامیاں، دنیا کی واحد سپر پاور ہونے کے دعویداروں کی ناتوانی کی کھلی مثالیں ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی کے پیغام حج میں اس بات کو صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ فلسطین کا میدان اس حیرت انگیز حقیقت کی ایک جلوہ گاہ ہے اور اس چیز نے تخریب کار صیہونی حکومت کو جارحانہ انداز اور شرانگیزی کی حالت سے نکال کر دفاعی پوزیشن اور پسپائی کی حالت میں لا کھڑا کیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ استقامت کے دیگر درخشاں نمونوں کو لبنان، عراق، یمن اور بعض دوسری جگہوں پر واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
حالیہ برسوں کے دوران مغربی ایشیا کے مختلف ملکوں میں ابھرنے والی استقامتی تحریکوں نے عالمی سامراج اور دشمنان اسلام کا مقابلہ کرنے والے استقامتی محاذ کو بڑی کامیابی سے ہمکنار کیا ہے۔ شام کے خلاف تمام تر سازشوں کے باوجود شامی حکومت استقامتی محاذ کی مدد سے اپنا وجود قائم رکھنے میں کامیاب رہی، عراق میں دہشت گرد گروہ داعش کے قیام کے ذریعے پورے ملک پر اسے مسلط کرنے کی کوشش کی گئی مگر داعش کو بھی استقامتی محاذ کی مدد سے ناکام بنا دیا گیا۔
یمن بھی جسے سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کی سازش اور فوجی جارحیت کا سامنا ہے، بھرپور استقامت و مزاحمت کر رہا ہے اور جارح قوتوں کے خلاف پے در پے کامیابی حاصل کرتا جارہا ہے، یہاں تک کہ سعودی عرب کو عارضی جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔
رہی بات فلسطین کی تو اسے بلاشبہہ عالم اسلام کا اہم ترین مسئلہ اور اسلامی استقامت و مزاحمت کا رول ماڈل سمجھنا چاہیے۔ آج فلسطین میں استقامت کا عزم اپنے عروج پر دکھائی دے رہا ہے اور طاقت کا توازن غیر مساوی ہونے کے باوجود غاصب صیہونی فوج، فلسطینیوں کے خلاف پھر جنگ شروع کرنے کے قابل نہیں ۔ اس کے برخلاف فلسطینی عوام غاصب اسرائیل کے خلاف طویل اور تھکا دینے والی جنگ کے لیے پوری طرح آمادہ ہیں اور حالیہ برسوں کے دوران انہوں نے غاصبوں کے خلاف جنگوں میں بے شمار کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں۔