شہید قاسم سلیمانی کیوں امریکہ کی آنکھوں کا کانٹا بنے
شہید قاسم سلیمانی بہادری، بے باکی، بے تکلفی، سادگی، فراخدلی، خلوص اور نیک نیتی جیسی بے شمار خصوصیتوں کے حامل تھے۔ وہ مظلوموں کے حامی اور جابروں اور مستکبروں کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے طور پر پہچانے جاتے ہیں جنکی ان دنوں دنیا بھر میں تیسری برسی منائی جا رہی ہے۔
سحر نیوز/ایران: تین جنوری کو عراقی دارالحکومت بغداد پر رونما ہونے والے ایک المناک واقعہ کو 3 سال ہونے والا ہے جب مظلوموں کے حامی اور امریکی، صیہونی اور تکفیری دہشتگردی کے خلاف جنگ کے عظیم سپہ سالار جنرل قاسم سلیمانی اپنے ساتھی ابو مہدی المہندس کے ہمراہ امریکی دہشتگردوں کے ہاتھوں شہید کر دیئے گئے تھے۔
آج دنیا کے تمام حریت پسند انہیں یاد کرتے ہوئے خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں اور انسانیت کے تحفظ کی راہ میں انکی ناقابل بیان جانفشانیوں کو خراج تحسین پیش کر رہے ہیں۔
یورپ ہو یا امریکہ، افریقہ ہو یا ایشیا، تمام بر اعظموں میں امریکہ، صیہونیت و تکفیریت کے پروردہ دہشتگرد ٹولے کی نام نہاد حکومت کے خواب چکناچور کر کے عالمی سامراج کی ناک رگڑنے والے عالم اسلام کے عظیم کمانڈر کو خراج عقیدت پیش کیا جا رہا ہے۔
ہندوستان و پاکستان کی اگر بات کی جائے ان دنوں بہت سے شہروں اور حتیٰ چھوٹے قریوں اور دیہاتوں میں شہید قاسم سلیمانی اور شہید ابو مہدی المہندس کے نام پر لوگ اکٹھا ہو کر انہیں اور انکے شہید ساتھیوں کو خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں۔
کہیں فرشِ مجلس بچھا ہے تو کہیں کانفرنس ہو رہی ہے، کہیں کتابخانی کا مقابلہ ہے تو کہیں بچوں کے لئے آرٹ کمپٹیشن رکھا گیا ہے، کہیں انکے نام پر روڈ کے کنارے اسٹال لگائے جا رہے ہیں تو کہیں انکی تصویر سے مزین پوسٹرز، کی رنگز اور ٹی شرٹیں لوگوں میں تقسیم کی جا رہی ہیں۔ کچھ جیالے ہیں جنہوں نے شہید کے نام پر غریب، نادار اور پریشاں حال لوگوں کو سہارا دینے کا بیڑا اٹھایا ہے اور انکے لئے امدادی پیکیجز تیار ہو رہے ہیں۔
جنرل قاسم سلمیانی در حقیقت مزاحمت و استقامت کے میدان میں سب سے با اثر اور ناقابل تسخیر بین الاقوامی شخصیت تھے۔
امریکہ عالم اسلام کے اس ہردل عزیز اور عالمی شہرت کے حامل شجاع کمانڈر کو اپنے گھناؤنے منصوبوں پر عمل در آمد کی راہ میں بڑی رکاوٹ سمجھتا تھا۔ اسی لئے اُس نے جنرل سلیمانی کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا اور صیہونی حکومت نے جنرل قاسم سلیمانی کو راستے سے ہٹانے کیلئے امریکہ کا ساتھ دیا۔
امریکی دہشتگردوں نے سابق امریکی صدر ٹرمپ کے براہ راست حکم پر اُس وقت جنرل سلیمانی کو نشانہ بنایا جب وہ عراق کی باضابطہ دعوت پر بغداد پہنچے تھے اور وہ اس ملک کے سرکاری مہمان کا درجہ رکھتے تھے۔ امریکہ نے جنرل قاسم سلیمانی کو راستے ہٹایا کیوں کہ وہ فلسطینی و یمنی حریت پسندوں، حزب اللہ اور تمام استقامتی تنظیموں کی آواز، مسلمانوں کے مابین اتحاد اور صلح و آشتی کے علمبردار ہونے کے ساتھ ساتھ داعش، القاعدہ، جبھتہ النصرہ اور علاقے میں سرگرم دیگر دہشتگرد گروہوں اور ان کے حامیوں اور سہولت کاروں کے راستے میں رکاوٹ تھے۔
امریکہ نے بزعم خود سلیمانی کی جان تو لے لی مگر وہ اس بات سے غافل رہا کہ سلیمانی ایک مکتب ہے جس کے سائے میں مختلف ممالک کے اندر پروان چڑھنے والے جیالے اُس کے گھناؤنے منصوبوں کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے اور بدستور وہ مختلف محاذوں پر عالمی سامراج کے خلاف نبرد آزما رہیں گے۔