یمنی فوج کے حملوں میں اضافہ، سعودی ہتھیار ناکارہ + مقالہ (دوسرا حصہ)
امریکی سینیٹر رابرٹ مونڈیز نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ کانگریس کو نظر انداز کرکے سعودی عرب اور امارات کو ہتھیار فروخت کر رہا ہے اور اس کے لئے وہ ایران کا نام استعمال کر رہا ہے۔
کانگریس کی جانب سے یہ اعتراض کیا جا رہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ ایران حکمت عملی جیسے اہم مسائل پر کانگریس کو اندھیر میں رکھے ہوئے ہے ۔
یہاں ایک اہم پہلو یہ ہے کہ سعودی عرب کو امریکا نیز کچھ مغربی ممالک سے ہتھیار تو خوب مل رہے ہیں لیکن جنگ یمن کو فتح کرنے میں یہ ہتھیار اس کی کوئی مدد نہیں کر رپا رہے ہیں ۔
یہی نہیں یمن کی فوج اور رضاکار فورسز کی جانب سے جوابی حملے تیز ہو گئے ہیں ۔ یمنی فوج نے حالیہ دنوں میں سعودی عرب پر متعدد ڈرون اور میزائل حملے کئے جبکہ ابو ظہبی پر ڈرون حملے کا ویڈیو بھی جاری کر دیا ۔
یمن کی طاقتور تحریک انصار اللہ کے رہنما محمد البخیتی کا کہنا ہے کہ ہم ریاض اور ابوظہبی کے انٹرنیشنل ائیرپورٹ بند کروا دینے کی توانائی رکھتے ہیں ۔ 27 جولائی 2018 کو ابو ظہبی کے انٹرنیشنل ائیرپورٹ کے اندر ڈرون حملے کی ویڈیو کی جانب اشارہ کرتے ہوئے محمد البخیتی نے کہا کہ یہ ویڈیو ثابت کرتی ہے کہ امارات کے پاس سچ بولنے کی ہمت نہیں ہے ۔ متحدہ عرب امارات سے حملے کے وقت کہا تھا کہ کوئی حملہ نہیں ہوا ۔
اس طرح اگر دیکھا جائے تو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا اتحاد یمن میں صرف عام شہریوں کو نقصان پہنچاتا رہا ہے اور یمن کی مزاحمتی طاقت میں اس اتحاد کے حملوں سے کوئی کمی واقع نہیں ہوئی بلکہ ان کی مزاحمتی طاقت میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
اس جنگ میں یمن کی فوج اور تحریک انصار اللہ نے علاقائی رای عامہ میں اپنی پوزیشن مضبوط بنا لی ہے ۔ سعودی عرب اندھا دھند حملے کر رہا ہے جس میں عام شہری نشانہ بن رہے ہیں ۔ اس بات پر سعودی عرب کی مذمت ان ممالک میں بھی ہو رہی ہے جو سعودی اتحادی سمجھے جاتے ہیں تاہم اس کے جواب میں یمنی فوج اور عوامی تحریک انصار اللہ نے ہمیشہ اس بات کا خیال رکھا ہے کہ ان کے حملوں میں کوئی عام شہری نشانہ نہ بننے پائے ۔
اس طرح اس جنگ میں اگر کسی کو شکست ہوئی ہے تو وہ سعودی عرب ہے جس نے پوری دنیا میں اپنی شبیہ خراب کر لی ہے۔ اسے شدید اقتصادی نقصان ہوا ہے اور بدنامی کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوا ہے۔
جہاں تک امریکا کا سوال ہے تو وہاں کی موجودہ حکومت کی نظریں صرف اقتصادی مفاد پر مرکوز ہیں اور وہ اسے ہتھیار فروخت کرکے حاصل ہو رہے ہیں اور اگر تنقید اور بدنامی ہو رہی ہے تو ٹرمپ انتظامیہ کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔