ترک حکومت کی سرنگونی کی بن سلمان کی سازش فاش، کیا ہوگا اردوغان کا ممکنہ جواب؟
متحدہ عرب امارات کی خفیہ ایجنسی سے لیک ہونے والی ایک رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ سعودی عرب کے حکومت مخالف صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد ریاض نے ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کی حکومت گرانے کی کوششیں شروع کر دی ہیں ۔
برطانیہ کی مڈل آئی ویب سائٹ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اسے متحدہ عرب امارات کی خفیہ ایجنسی کا ایک خفیہ دستاویز موصول ہوا ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ خاشقجی کے قتل کے بعد ریاض نے رجب طیب اردوغان کی حکومت گرانے کے منصوبے پر کام شروع کر دیا ہے جس کے تحت وہ انہیں داخلی بحرانوں میں الجھانا چاہتا ہے تاکہ ترکی کے علاقائی اثرات محدود ہو جائیں ۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب نے اس اسٹراٹیجک منصوبے پر کام، ولیعہد محمد بن سلمان کے حکم پر شروع کیا ہے ۔ اس کے مطابق گزشتہ مئی کے مہینے میں ریاض نے ترک حکومت سے مقابلے کے لئے اس منصوبے پر عمل کی ہدایت دی تھی جس کا ہدف اردوغان کی حکومت پر دباؤ ڈالنے اور اسے کمزور بنانے کے لئے ہر ممکنہ وسائل کا استعمال کرنا اور ترکی کی حکومت کو داخلی بحرانوں میں الجھانا ہے تاکہ وہ غلطیاں کرے اور داخلی مخالفین اس کا تختہ پلٹ دیں ۔
مڈل ایسٹ آئی نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ریاض نے اس منصوبے کے نفاذ کے لئے ترکی کے اقتصاد کو نشانہ بنانا شروع کیا ہے ۔ اس کے تحت اس نے ترکی میں اپنی سرمایہ کاری آہستہ آہستہ کم کرنا اور سعودی سیاحوں کے ترکی کے سفر کو محدود کرنا شروع کر دیا ہے ۔
اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ علاقے کے مسلم امور میں ترکی کے کردار کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یواے ای کی خفیہ ایجنسی سے لیک ہونے والے اس دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ترکی کے صدر، سعودی عرب خاص طور پر اس کے ولیعہد کی شبیہ خراب کرنے کے مقصد سے کئے گئے حملوں میں حد سے آگے بڑھ گئے ہیں اور اب جب وہ اس مسئلے کو عالمی سطح پر اٹھانے میں ناکام ہوگئے تو جواب کا وقت آ گیا ہے ۔
مڈل ایسٹ آئی نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ سعودی عرب کے اس منصوبے کا شروعاتی قدم گزشتہ ہفتے واضح ہو گیا جب سعودی حکام نے کپٹروں اور کیمیائی مواد سے لدے ترکی کے 80 ٹرکوں کو ملک کے اندر داخل ہونے سے روک دیا۔ ایک ترک عہدیدار نے یہ بھی بتایا کہ سعودی عرب نے پھلوں اور سبزیوں کے ترکی کے 300 کنٹینرز کو جدہ کی بندرگاہ پر روک لیا ہے۔ اس کے علاوہ ترکی کی وزارت سیاحت نے بھی بتایا ہے کہ جاری سال میں ترکی آنے والے سعودی سیاحوں کی تعداد گزشتہ سال کی بہ نسبت 15 فیصد کم ہوئی ہے۔
ایک اہم نکتہ جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ مکہ مکرمہ میں اسلامی تعاون تنظیم کا جو سربراہی اجلاس ہوا تھا اس میں سعودی فرمانروا نے ترکی کے صدر کو باضابطہ دعوت نامہ نہیں بھیجا تھا اور ان کا نام شام، ایران، اور قطر کے سربراہوں کی فہرست میں شامل کر دیا ۔
مڈل ایسٹ آئی کا کہنا ہے کہ ترکی کی حکومت، انقرہ سے تعلقات منقطع کرنے کی سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کی کوششوں سے آگاہ ہیں اور وہ اس بات کی کوشش کر رہی ہے کہ شاہ سلمان سے براہ راست رابطہ کرکے بن سلمان کی کوششوں کو ناکام بنائیں ۔
ترکی کے ایک اعلی عہدیدار نے اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ جمال حاشقجی کے مسئلے میں ترکی کے رخ کی وجہ سے انقرہ کو سزا دینے کی ریاض کی پالیسی کسی سے پوشیدہ نہیں تھی ۔ انہوں نے کہا کہ وہ لوگ جو کچھ کر رہےہیں، اس سے ہم آگاہ ہیں اور ان کے اقدامات تقریبا واضح ہیں ۔ وہ سوشل میڈیا کا سہارا لے کر ترکی سے تعلقات منقطع کرنے کی کوشش میں ہیں ۔