اسرائیل کو حزب اللہ کی بڑی دھمکی، کیا نئی جنگ کا پیش خیمہ ہے؟
لبنان کی اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے سکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ کا کہنا ہے کہ آج کے بعد لبنان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے والے صیہونی حکومت کے ہر طیارے کو مار گرایا جائے گا۔
انہوں نے داعش کے قبضے سے جرود عرسال کے پہاڑی علاقوں کی آزادی کی دوسری سالگرہ کی مناسبت سے منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر اسرائیل نے شام میں حزب اللہ یا اس کے مفاد پر حملے کئے تو لبنان سے لگی مقبوضہ فلسطین کی سرحدوں پر اسرائیلی فوجیوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔ انہوں نے دہشت گردوں کے خلاف استقامتی محاذ کی کوششوں کو سراہتے ہوئے لبنانی فوج کے فیصلے کو دلیرانہ قرار دیا اور دہشت گردوں کی حمایت میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کے کردار کی مذمت کی۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ داعش کے عناصر جب افغانستان میں محاصرے میں آ جاتے ہیں تو امریکی طیارے اور ہیلی کاپٹر ان کی مدد کو پہنچ جاتے ہیں ۔ انہوں نے امریکا کی جانب سے دہشت گردوں کی حمایت و پشتپناہی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آج امریکا، عراق میں بھی داعش کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے کیونکہ داعش کی شکست کے بعد اب عراق میں یہ مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے کہ امریکا کو عراق سے نکل جانا چاہئے۔
حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے کہا کہ دہشتگردوں کے خلاف جنگ میں حصہ لینے کا لبنانی فوج کا فیصلہ دلیرانہ تھا۔ حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے کہا کہ امریکہ نے داعش کو عراق میں کردار ادا کرنے کے لئے جنم دیا اور امریکی اس کی حفاظت کرتے تھے اور اسے استعمال کررہے ہیں اور داعش کا خطرہ اب بھی باقی ہے۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ شام کی حکومت اور فوج آج بہترین پوزیشن میں ہے اور فتح حاصل کرنے کی توانائی رکھتی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ادلب اور مشرقی فرات کا علاقہ آزاد ہوگا۔
حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے کہا کہ صیہونی حکومت نے باضابطہ اعتراف کیا ہے کہ اسرائیلی ڈرون ضاحیہ علاقے پر حملہ کرنا چاہتے تھے، یہ بہت ہی خطرناک ہے، یہ لبنان کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے۔ اگر ہم جارحیت پر خاموش رہے تو یہ بڑے خطرے کا مقدمہ ہوگا، ہر دوسرے تیسرے دن ایک خودکش ڈرون یہاں وہاں حملہ کرتا نظر آئے گا۔ یعنی عراق کا ڈرامہ دہرایا جائے گا، جو عراق میں آج ہو رہا ہے، رضاکار فورسز کے ہتھیاروں کے ذخائر کو ڈرون سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اسرائیل نے اشاروں میں ذمہ داری قبول کی اور فخر کر رہا ہے۔ عراقی حکام اس سے کیسے نمٹتے ہیں یہ ان کا فیصلہ ہوگا، لیکن میری نظر میں ہم لبنان میں ایسا نہیں ہونے دیں گے۔