عراق کے شہر خانقین پر داعش کا حملہ ناکام
عراق کی عوامی رضاکار فورس حشد الشعبی نے ملک کے مشرقی صوبے دیالہ کے شہر خانقین پر داعشی دہشت گردوں کے حملے کی کوشش ناکام بنادی ہے۔
بغداد میں دفاعی عسکری اور دفاعی ذرائع کے مطابق خانقین کے علاقے نفت خانہ کے قریب ہونے داعشی دہشت گردوں کے ساتھ ہونے والی شدید جھڑپوں میں عوامی رضاکار فورس کے پانچ جوان شہید اور پانچ دیگر زخمی ہوئے ہیں۔
عراقی عوامی رضاکار فورس کے حملوں میں درجنوں دہشت گرد ہلاک ہوئے ہیں اور بھاری مقدار میں اسلحہ اور گولہ بارود بھی تباہ کردیا گیا ہے۔
عراق کی عوامی رضاکار فورس کے جوانوں نے پیر کے روز صوبہ الانبار اور صلاح الدین میں جاری آپریشن کے دوران دہشت گرد گروہ داعش کے متعدد خفیہ ٹھکانوں اور سرنگوں کا پتہ لگانے کے بعد انہیں تہس نہس کردیا تھا۔
عراق میں داعش کی شکست کے باوجود اس دہشت گرد گروہ کے باقی ماندہ عناصر گاہے بگاہے دہشت گردانہ حملے کرتے رہتے ہیں۔
دہشت گرد گروہ داعش کا قیام سن دوہزار چودہ میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی مالی اور فوجی حمایت کے ذریعے عمل میں آیا تھا۔
امریکہ اور سعودی عرب کے حمایت یافتہ اس گروہ نے عراق کے وسیع علاقے پر قبضہ کرلیا تھا اور اپنے زیر قبضہ علاقوں میں انسانیت سوز جرائم کا ارتکاب کیا تھا۔
حکومت عراق نے دہشت گرد گروہ کے جنگ میں اسلامی جمہوریہ ایران سے فوجی مشاورت کی درخواست کی تھی جسے تہران نے قبول کرلیا تھا۔
عراقی سیکورٹی فورس نے ایران کے فوجی مشاورت کے ذریعے سترہ نومبر دوہزار سترہ کو صوبہ الانبار واقع داعش کے آخری ٹھکانے، راوہ شہر کو آزاد کرالیا تھا۔ راوہ شہر کی آزادی کے بعد عراق میں داعش کا عملی طور پر خاتمہ ہوگیا ہے۔
عراق کی عوامی رضاکار فورس کا قیام سن دوہزار چودہ میں ملک کے مختلف شہروں پر داعش کے قبضے کے بعد بزرگ مرجع تقلید آیت اللہ العظمی سید علی سیستانی کے تاریخی فتوے کے بعد عمل میں آیا تھا جسے عراقی پارلیمنٹ نے سن دوہزار سولہ میں ایک بل پاس کرکے ملک کی مسلح افواج کی کمان میں دے دیا تھا۔
آیت اللہ العظمی سید علی سیستانی نے تیرہ جون دوہزار چودہ کو عراق کے تمام مسلمانوں کو داعش کے خلاف جنگ یا جہاد کی دعوت دی تھی۔ اس اپیل کے بعد وسیع پیمانے پرعراق کے شیعہ مسلمان رضاکار فورس میں شامل ہوئے اور وہ سب حشد الشعبی کے زیر پرچم جمع ہوگئے۔ حشد الشعبی میں شامل رضاکار دستوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جس میں مختلف طبقات اور سیاسی نظریات کے افراد شامل ہیں۔ یہ تنوع رضاکار دستے کے درمیان سیاسی اور فکری لحاظ سے اتحاد کا سبب بنا۔