امریکی سرپرستی میں داعش کی واپسی
عراق میں داعش کی نام نہاد خلافت کے خاتمے کےبعد پہلی بار اس دہشت گرد گروہ کے روپوش جتھوں نے ایک بار پھر سر اٹھایا ہے اور پچھلے تین روز کے دوران مختلف علاقوں میں کئی حملے کیے ہیں ۔ زیادہ تر حملے عراق کی عوامی رضاکار فورس الحشد لشعبی کے مراکز پر کیے گئے۔ الحشدالشعبی کی چھبیسویں بٹالین کے کمانڈر حیدرالموسوی نے کہا ہے کہ صوبہ کربلاء کے علاقے النخیب پر داعش دہشتگردوں نے حملہ کیا جسے ناکام بنادیا گیا ہے۔
امریکی سرپرستی میں داعش کی واپسی
تحریر : عظیم سبزواری
۔۔۔۔۔۔
عراق میں داعش کی نام نہاد خلافت کے خاتمے کے بعد اس دہشت گرد گروہ کے روپوش جتھوں نے ایک بار پھر سر اٹھایا ہے اور پچھلے تین روز کے دوران مختلف علاقوں میں کئی شدید حملے کیے ہیں ۔ زیادہ تر حملے عراق کی عوامی رضاکار فورس الحشد الشعبی کے مراکز پر کیے گئے۔ الحشد الشعبی کی چھبیسویں بٹالین کے کمانڈر حیدر الموسوی نے کہا ہے کہ صوبہ کربلاء کے علاقے النخیب پر داعش دہشتگردوں نے حملہ کیا جسے ناکام بنادیا گیا ہے۔
داعش نے اب تک کا سب سے شدید حملہ جمعے کی شب صوبہ صلاح الدین میں ، شمالی سامرا سے پندرہ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع عراق کی عوامی رضا کار فورس الحشد الشعبی کے ایک مرکز پر کیا ۔ کئی گھنٹے تک جاری رہنے والے اس حملے میں الحشد الشعبی کے پندرہ جوان شہید اور پچیس زخمی ہوئے۔
عراقی ذرائع نے فیلڈ میں موجود عسکری کمانڈروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ جدید ترین ہتھیاروں سے لیس خفیہ داعشی جتھے ، عوامی رضاکار فورس کے خلاف وسیع حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق داعش کے ہزاروں دہشت گرد عراق کے مغربی، شمالی اور مشرقی صوبوں میں روپوش ہیں اور کسی اچھے موقع کی تاک میں ہیں۔بعض ذرائع نے عراق میں روپوش داعشی دہشت گردوں کی تعداد چھے ہزار کے قریب بتائی ہے۔
ایسے وقت میں جب دنیا کورونا وائرس کے خلاف مہم میں مصروف ہے، عراق میں داعش کے خفیہ جتھوں کا دوبارہ سرگرم ہو جانے اور عوامی رضاکار فورس کے خلاف ان کے حملوں میں شدت کی وجہ کیا ہے؟ وہ کون سی قوت یا قوتیں ہیں جو داعش کے خوابیدہ جتھوں کو پھر سے متحرک کر رہی ہیں؟
قارئین کو یاد ہوگا کہ ہم نے اپنے پچھلے مقالے" عراق میں نئی امریکی سازش " کے ذیل میں لکھا تھا کہ 23 مارچ کو متحدہ عرب امارات میں ہونے والی امریکی فوجی مشقوں کے لیے صحرائی علاقے میں ایک ایسا فرضی شہر بسایا گيا تھا جو بالکل عراقی شہروں اور خاص طور سے دار الحکومت بغداد سے ملتا جلتا ہے۔ ان مشقوں میں متحدہ عرب امارات کی فوج کے علاوہ تین ایسے عراقی مسلح گروپ بھی شریک تھے جن کا اس ملک کی مسلح افواج یا سیکورٹی اداروں سے کوئی تعلق نہیں۔ مشقوں کے دوران اونچی عمارتوں، مساجد اور مقدس مقامات پر ہیلی بورن یا چھاتہ بردار فوج اتارنے کے علاوہ، اسٹریٹ فائٹنگ اور بکتر بندگاڑیوں کو آبی راستوں سے گزارنے کے عمل پر زیادہ توجہ دی گئي۔ بعض میڈیا رپورٹوں میں اس جانب بھی اشارہ کیا گيا ہے کہ ان مشقوں میں اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کے اہلکار بھی ، امریکہ اور متحدہ عرب امارات کے فوجیوں کے ساتھ شریک تھے۔
امریکہ جیوپولیٹک وجوہات کی بنا پر عراق میں طویل عرصے تک رہنا چاہتا ہے۔ اس کے لیے اس نے مرحلہ وار منصوبہ تیار کیا ہے جس کا پہلا مرحلہ بظاہر کرپشن کے خلاف ہونے والے عوامی مظاہرے تھے جو عراق میں سیاسی تعطل کا باعث بنے ۔ تب سے اب تک عراق میں اب تک کوئی مستقل حکومت نہیں ہے اور ملک کا نظام عبوری وزیر اعظم کے ذریعے چلایا جارہا ہے۔ حکومت سازی کی دو کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ تیسرے نامزد وزیر اعظم مصطفی الکاظمی کابینہ سازی میں مصروف ہیں اور انہیں ابھی پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا ہے۔ تیل کی قیتموں میں کمی کے سبب عراق کو اقتصادی بحران کے ساتھ ساتھ کورونا کا بھی سامنا ہے جبکہ بغداد کے تحریر اسکوائر پر سینکڑوں مظاہرین اب بھی دھرنا دیئے بیٹھے ہیں۔
دوسرے مرحلے میں بغداد میں ایران کی سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی اور عراق کی عوامی رضاکار فورس کے ڈپٹی کمانڈر جنرل ابومہدی المہندس کو شہید کیا گيا جس کا مقصد اس سازش کے مقابلے میں عوامی قوتوں کو موبلائز کرنے کا راستہ روکنا اور استقامی محاذ میں خوف و ہراس پیدا کر کے ان مختلف کڑیوں کو ایک دوسرے سے دور کرنا تھا۔
اس دوران ہم عراق کی استقامتی تحریک النجبا کے جاری کردہ بیان کی جانب قارئین کی توجہ دلانا چاہیں گے جس میں کہا گیا ہے کہ امریکہ شام میں داعشی دہشت گردوں اور خاص طور سے اس کے اہم کمانڈروں کو عراق منتقل کرنے کی سازش پر عمل کر رہا ہے اور یہ کام سرحدی علاقوں میں امریکی فوج کی نقل و حرکت کے سائے میں انجام پا رہا ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ داعش نے دس جون دو ہزار چودہ میں بھی شامی سرزمین سے ہی عراق پر حملہ کیا تھا اور چند روز کے دوران عراق کے صوبے نینوا اور الانبار پر مکمل اور پانچ دیگر صوبوں، دیالہ، کرکوک، صلاح الدین، بغداد اور بابل کے بعض علاقوں میں تسلط قائم کر لیا تھا۔
اس پس منظر میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ عراق میں امریکہ کی نئي سازش کے تیسرے مرحلے کا آغاز ہو گيا ہے جس میں داعشی دہشت گردوں کے زیر زمین جتھوں کو پھر سے متحرک کر کے ایک بار پھر سن دو ہزار چودہ جیسی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔