خاشقجی قتل کیس کا اہم مجرم، سعودی شاہی دربار کے عہدے پر بحال
سعودی حکومت کے مخالف صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث اہم مجرم کو خاموشی کے ساتھ اس کے عہدے پر بحال کردیا گیا۔
سعودی شاہی خاندان اور حکومت کے بارے میں وقتا فوقتا انکشافات پر مبنی خبریں شائع کرنے والے آن لائن جریدے العہد الجدید نے اپنے تازہ ٹوئٹ میں انکشاف کیا ہے کہ جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث سب سے اہم ملزم سعود القحطانی کو دو سال کے بعد شاہی دربار میں اس کے سابقہ عہدے پر بحال کردیا گیا ہے۔ سعود القحطانی سعودی شاہی دربار کے سربراہ اور ولی عہد محمد بن سلمان کے قریبی ساتھی شمار ہوتے ہیں اور انہیں معروف صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث افراد میں فرسٹ لائن مجرم یا ملزم قرار دیا جاتا ہے۔
سعودی حکومت اور خاص طور سے ولی عہد بن سلمان پر کڑی نکتہ چینی کرنے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی اکتوبر دوہزار اٹھارہ میں ترکی کے شہر استنبول کے سعودی قونصل خانے میں داخل ہونے کے بعد لاپتہ ہوگئے تھے۔
سعودی حکومت نے کئی روز کی خاموشی اور تردید کے بعد شدید عالمی دباؤ کی وجہ سے آخر کار اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ جمال خاشقجی کو سعودی قونصل خانے میں قتل کردیا گیا ہے۔
ترکی کے محکمہ انصاف نے مارچ دوہزار انیس میں سعودی شاہی دربار کے سربراہ سعود القحطانی اور ڈپٹی انٹیلی جنس چیف احمد العسیری کو جمال خاشقجی کے قتل کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے باضابطہ فرد جرم عائد کی تھی۔
بعد ازاں سعودی عرب کے پراسیکیوٹر جنرل نے سات ستمبر دوہزار انیس کو جمال خاشقجی قتل کیس میں ملوث افراد کے بارے میں حتمی فیصلہ جاری کرتے ہوئے دعوی کیا تھا کہ جمال خاشقجی کے اہل خانہ کی جانب سے معافی کے اعلان کے بعد اس کیس کا ذاتی معاملہ ختم ہوگیا ہے جبکہ جرم کی عمومی حیثیت کے تناظر میں آٹھ افراد کو سات سے بیس سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
جمال خاشقجی کے بیٹوں کے ذریعے باپ کے قاتلوں کو معاف کردینے کا اعلان سعودی ذرائع ابلاغ نے ایک ایسے وقت میں کیا تھا جب جمال خاشقجی کے اہل خانہ کے ملک سے باہر جانے پر پابندی عائد کردی گئی تھی جو تاحال باقی ہے۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے علاقائی اور عالمی حلقوں کا خیال ہے کہ سعودی ولی عہد بن سلمان، سعود القحطانی اور احمد العسیری ہی جمال خاشقجی قتل کیس کے اہم اور اصلی مجرم ہیں تاہم ان میں کوئی بھی تاحال کسی عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوا ہے۔