افغانستان میں دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ، طالبان بے بس، عوام بے چین
افغانستان میں بڑھتے قتل، اغوا، دھماکوں اور بد امنی کے واقعات نےپریشاں حال عوام کو مزید خوف و ہراس میں مبتلا کر دیا ہے۔
افغانستان کے بین الاقوامی صحافی سید معروف سادات کو ننگرہار میں حملہ کر کے قتل کر دیا گیا جبکہ ایک دوسرے واقعے میں ایک فوجی اور دو طالبان اہلکار بھی مارے گئے ہیں۔ ابھی تک کسی شخص یا گروہ نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
گذشتہ روز کابل میں ایک اسٹیڈیم کے ثقافتی شعبے کے سربراہ جعفر حیدری کا گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔ اس طرح کے واقعات کے باوجود طالبان نے وعدہ کیا ہے کہ جرائم کے ذمہ دار عناصر کا پتہ لگا کر ان پرمقدمہ چلایا جائے گا اور انہیں قرار واقعی سزا دی جائے گی۔
ارنا نے رپورٹ دی ہے کہ شمالی افغانستان میں واقع صوبہ جوزجان کے ضلع آقچہ کے ایک شادی ہال میں ہونے والے دھماکے میں دلہن سمیت چار افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ کئی افراد زخمی ہو گئے۔
اس سے قبل دارالحکومت کابل میں بھی عیدگاہ کے پاس دہشت گردانہ بم دھماکے کے نتیجے میں کم سے کم دو عام شہری جاں بحق اور متعدد دیگر زخمی ہوگئے تھے۔
اس قسم کے بڑھتے واقعات نے از قبل تشویش و اضطراب کے شکار افغان عوام میں مزید خوف و ہراس پیدا کر دیا ہے۔ علاقائی مسائل سے آشنا ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں موجود دیگر دہشتگرد گروہوں کی موجودگی اور ان کا مقابلہ طالبان حکومت کے لئے ایک بڑا چیلنج شمار ہوتا ہے۔ یہ معاملہ اُس وقت مزید پیچیدگی اختیار کر جاتا ہے کہ جب یہ دیکھا جائے کہ ان دہشتگرد گروہوں میں وہ ٹولے بھی شامل ہیں جنہیں امریکہ نے افغانستان میں اپنی موجودگی کے دوران پال پوس کر بڑا کیا یا پھر دیگر ممالک سے انہیں افغانستان منتقل کیا ہے۔