مسلمانان عالم نبی رحمت (ص) کے نام پر باآسانی متحد ہو سکتے ہیں/ سعودی اور صیہونی دونوں حکومتیں ایک ہی ماں کی اولاد ہیں: مولانا سلمان ندوی
نبی رحمت حضرت رسالتمآب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ایام ولادت اور ہفتہ اتحاد کی مناسبت سے ایران کے دارالحکومت تہران میں ہر سال کی طرح اس سال بھی عالمی وحدت کانفرنس کا سلسلہ جاری ہے جس میں عالم اسلام کی مختلف معروف دینی و سیاسی شخصیتیں شامل ہیں۔
اس موقع پر ہندوستان کے معروف اہلسنت عالم دین سید سلمان الحسینی الندوی نےاتحاد امت کے حوالے سے گزشتہ چالیس برسوں میں اسلامی جمہوریہ ایران کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ ہفتہ وحدت کا مقصد امت اسلامیہ اور مسلم ممالک کے مابین آپسی رشتوں کو مضبوط بنانا ہے اور یہ کام نبی رحمت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نام پر با آسانی کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جو عاشق نبی ہے وہ بہرحال عاشق اہلبیت بھی ہوتا ہے اور یہ فطرت اور ایمان دونوں کا تقاضا ہے۔
مولانا سلمان ندوی نے ایران کے سحر اردو ٹی وی کے پروگرام انداز جہاں میں گفتگو کرتے ہوئے موجودہ حالات میں اتحاد امت کو نہایت اہم قرار دیا اور کہا کہ کاش اتحاد امت کے حوالے سے جو کاوشیں ایران کی جانب سے ہو رہی ہیں، ویسی کوششیں دوسرے اسلامی ممالک بالخصوص حرمین شریفین کی مقدس سرزمین (پر حکمرانی کرنے والوں) کی جانب سے بھی کی جاتیں۔ انہوں نے کہا کہ اتحاد امت کی کوششیں مصر سے لے کر مراکش تک اور عراق و شام سے لے کر انڈونیشیا و ملیشیا جیسے عالم اسلام کے دیگر ممالک تک، سبھی کی جانب سے ہونی چاہئیں۔
مولانا سلمان ندوی نے اتحاد کے حوالے سے عالم اسلام سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ شیعہ سنی جیسے الفاظ کو ٹھنڈے بستے میں ڈال کر خود کو قرآنی زبان میں مسلم کہلوائیں۔ ہندوستان کے معروف اہل سنت عالم دین نے کہا کہ اگر اسلام کو بنیاد اور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اپنا پیشوا قرار دے دیا جائے تو پوری امت ہر حال میں متفق و متحد ہو جائے گی۔
انہوں نے اس سوال کے جواب میں کہ اسلام دشمن قوتوں کے خلاف مسلمان ملتیں اور عوام تو متفق و متحد ہیں مگر مسلم حکمراں اپنے عوام کا ساتھ دینے کے بجائے اسلام دشمن طاقتوں سے ناتا کیوں جوڑ رہے ہیں، کہا کہ اس کی بنیادی وجہ یہ رہی کہ ماضی میں مسلم ممالک پر عالمی سامراج کا قبضہ رہا اور جو آزادی عوام کی کوششوں سے انہیں حاصل ہوئی وہ صرف سیاسی اور عسکری نوعیت کی تھی مگر فکری اور تہذیبی لحاظ سے وہ بدستور انکے غلام رہے اور جس وقت سامراج نے مسلم ممالک کو چھوڑا تو انہوں نے انکی افواج میں، انکے بنیادی اور اہم مراکز میں اپنے نمائندے اور ایجنٹ چھوڑ دئے جو انکے چلے جانے کے بعد بھی مسلمان ملکوں میں سرگرم رہے اور سامراج کی گماشتہ ایجنسیاں ایک نئے سامراج کی شکل میں مسلم ممالک میں کام کرتی رہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن رہ چکے مولانا سلمان ندوی نے کہا کہ دوہزار گیارہ کے بعد تیونس، مصر اور لیبیا جیسے بعض اسلامی ممالک میں انقلاب کی لہر اٹھی جس کے دوران یہ کوشش کی گئی کہ سامراج کے مسلط کردہ عناصر کے چنگل سے ملک کو نجات دلائی جائے، مگر چونکہ اس انقلاب کی کوئی منظم قیادت نہیں تھی لہٰذا سامراج کے آلہ کاروں نے مغرب نواز لوگوں اور عسکری طاقت کے بل پر اس کا سر کچل دیا اور وہ مسلم افواج جنہوں نے کبھی اسلام دشمن طاقتوں بالخصوص صیہونی حکومت کے خلاف کوئی مزاحمت نہیں کی، انہیں خود مسلم عوام کی سرکوبی کے لئے استعمال کیا گیا۔
مولانا سلمان حسینی ندوی کا کہنا تھا کہ یہ جو لفظ عالم اسلام استعمال کیا جاتا ہے اور جن ممالک پر عالم اسلام کے لفظ کا اطلاق ہوتا ہے یہ صرف کاغذ کی حد تک ہے اور حقیقتاً وہ عالم اسلام نہیں بلکہ عالم طغیان ہے کہ جہاں استکبار اور سامراجی نظام کی جانب سے مسلط کردہ طاغوتوں کی حکومت ہے۔
ہندوستان کے دار العلوم ندوۃ العلماء میں حدیث کے استاذ اور کلیۃ الدعوۃ والاعلام کے سابق عمید مولانا سید سلمان ندوی نے تکفیریت کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ یہ سلسلہ خود عالم اسلام میں افتراق اور انتشار پیدا کرنے کے لئے ہی شروع کیا گیا، تاکہ مزاحمت کرنے والی مسلم ملتوں اور گروہوں کے خلاف کفر و الحاد کے فتوے جاری کر کے ان کی سرکوبی اور خون خرابے کے اسباب فراہم کئے جا سکیں اور اس منصوبے کے پیچھے بھی سامراجی قوتیں کارفرما ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مختلف مسلم ممالک میں فتوے جاری کرنے والے سرکاری مفتیوں اور مولویوں کا کام ہی سامراج کے اغراض و مقاصد کی تکمیل ہے اور انہیں عناصر کی وجہ سے آج امت اسلامیہ میں خلفشار اور اختلاف و افتراق کا ماحول ہے۔
مولانا سلمان ندوی کا کہنا تھا کہ فلسطین اور بیت المقدس کے حق میں سعودی عرب جیسے ممالک کے اندر سے آواز بلند نہ ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ انکی حکومتیں امریکی و برطانوی سامراج اور صیہونی حکومت کے اتفاق اور انکی حمایت سے ہی وجود میں آئی ہیں۔ انہوں نے سعودی اور صیہونی حکومت کو دو جڑواں بچوں سے تعبیر کیا جن کے تحفظ کی ذمہ داری امریکہ نے سنبھال رکھی ہے۔
ہندوستان کے معروف اہل سنت عالم دین نے کہا کہ یہ تاریخی، تحقیقی اور دستاویزی طور پر ثابت ہو چکا ہے کہ سعودی اور صیہونی دونوں حکومتیں ایک ہی ماں (امریکہ) کا دودھ پی کر پروان چڑ رہی ہیں، یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب کی طرف کبھی بھی صیہونی حکومت کو رمی جمرات کی طرح ایک کنکری بھی مارنے کی بات نہیں کی جاتی۔
انہوں نے آل سعود حکومت کو صیہونی عرب سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ اس حکومت نے ابھی تک اپنی حقیقت کو پنہاں رکھا اور اسے ظاہر نہیں ہونے دیا اور اسلامی نقاب پہن کر انہوں نے اپنے مقاصد کی تکمیل کی مگر اب انکی حقیقت سب کے لئے عیاں ہو چکی ہے اور نوبت یہ آ گئی ہے کہ انہوں نے قبلہ اول مسجد الاقصیٰ اور فلسطین کی سرزمین کے خلاف سینچری ڈیل منصوبے کی حمایت کی اور مصر، امارات، بحرین اور سعودی عرب کی حمایت سے صیہونی حکومت اسرائیل کے ساتھ انجام پانے والی سینچری ڈیل کا مقصد غزہ کے عوام کو صحرائے سینا اور مغربی کنارے کے فلسطینیوں کو اردن میں ڈھکیل کر فلسطینی قوم کو خود انکی آبائی سرزمین سے نکال باہر کر دینا اور مسجد الاقصیٰ کو شہید کرنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت دنیا میں ایک صیہونی حکومت نہیں ہے بلکہ متعدد صیہونی حکومتیں سرگرم عمل ہیں جو اسلام دشمن امریکیوں اور صیہونیوں کے ایجنڈے پر کارفرما ہیں اور آج عرب ممالک کا بچہ بچہ اپنے حکمرانوں کو صیہونی حکام سے تعبیر کرتا نظر آ رہا ہے۔
انہوں نے فلسطین کے شہید رہنما شیخ احمد یاسین کے شروع کردہ انتفاضہ کو یاد کرتے ہوئے بڑے وثوق سے یہ بات کہی کہ فلسطین میں انقلاب برپا ہوگا اور خود ساختہ صیہونی حکومت (اسرائیل) کا زوال یقینی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ ہندوستان کے معروف اور تاریخی شہر لکھنؤ سے تعلق رکھنے والے مولانا سید سلمان حسینی الندوی عالمی وحدت کانفرنس میں شرکت کی غرض سے آج کل تہران میں موجود ہیں۔ مولانا سلمان ندوی کا شمار ہندوستان کے مشہور علما اور خطیبوں میں ہوتا ہے اور وہ ناصبیت، غلو، جمود و تعطل، تجددپسندی، عالم اسلام میں منافقت اور صہیونیت و صلیبیت پرستی کے خلاف تحریر و تقریر کے لئے خاصی شہرت کے حامل ہیں۔