لبنان کے اندرونی مسائل کے سلسلے میں حزب اللہ لبنان کے سربراہ کا اہم خطاب
لبنان کو بھکاری نہیں ایک خودمختار ملک ہونے کی ضرورت ہے: سید حسن نصر اللہ
لبنان میں عام پارلمانی انتخابات کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے جس کے تحت پہلے مرحلے میں گزشتہ جمعے کو ووٹنگ ہوئی جبکہ دوسرے مرحلے کی ووٹنگ ۱۵ مئی بروز اتوار انجام پائے گی۔ موجودہ انتخابات کی حساسیت و اہمیت کے پیش نظر حزب اللہ لبنان کے سربراہ سیدن حسن نصر اللہ نے لبنانی عوام سے براہ راست خطاب میں کچھ اہم مسائل پر روشنی ڈالی۔
حزب اللہ لبنان کے جنرل سکریٹری نے کہا ہے کہ ملک کے رائے دہند گان کے پاس آئندہ انتخابات میں دو متبادل میں سے کسی ایک کو چننے کا اختیار ہے، ایک وہ دھڑا جسکا سارا ہم و غم لبنان ہے اور دوسرا وہ دھڑا جو امریکہ کو خوش کرنا چاہتا ہے۔
سید حسن نصراللہ نے منگل کے روز ٹی وی چینل کے ذریعے براہ راست لبنانی عوام سے خطاب کیا۔
انہوں نے لبنانی عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آج آپ کو دو میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہے؛ وہ جو اپنے بیرونی تعلقات کو قوم کو مضبوط بنانے کے لئے بروئے کار لاتا ہے یا وہ جو بیرون ملک سے پیسے لاکر اپنے بینک اکاؤنٹ کو بھرتا ہے، آپ کو ایمانداری سے ان دو میں کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے، وہ جو سخت حالات میں بھی اپنی ذمہ داری سے پیچھے نہیں ہٹتا اور وہ جو برسوں سے آپ کو دھوکہ دے رہا ہے، آپ کے سامنے حقیقی خود مختار جو لبنان مضبوط قوم بنانا چاہتے ہیں اور نقلی خود مختار جو ملک کو کمزور کرنا چاہتے ہیں، ان میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کا اختیار ہے، آپ کو خطے میں لبنان کو مضبوط بنانے والے اور بیرونی سفارتخانوں کے دروازوں پر بھیک مانگنے والوں میں کسی ایک کو چننا ہے۔
حزب اللہ لبنان کے سربراہ نے کہا کہ لبنان سبھی کا ہے چاہے وہ کسی بھی مذہب اور سیاسی نظریہ میں یقین رکھتا ہو اور لبنان کا مزاحمتی محاذ ملک کے سیاسی نظام اور دستور کو بدلنا نہیں چاہتا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم خود کو حکومت کے متبادل کے طور پر پیش نہیں کر رہے ہیں، یہاں تک کہ مزاحمت کے موضوع پر بھی، کیونکہ ملک میں ایک حکومت موجود ہے، ہمارے پاس قانون اور دستور ہے۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ ہم پارلمینٹ میں نارمل کوٹے سے سبھی کی نمائندگی چاہتے ہیں، ہم شراکت کی اپیل کرتے ہیں، اکثریت اور اقلیت کے نعرے کے تحت دوسروں کا صفایا کرنے سے لبنان افراتفری کا شکار ہو جائے گا اور میں قومی سطح پر شراکت کی اپیل کرتا ہوں تاکہ ملک کو بحران سے نکالا جا سکے۔
حزب اللہ لبنان کے جنرل سکریٹری نے بتایا کہ کس طرح یوم قدس کی تقریر کے بعد انکے پاس سفارتی ذریعے سے ایک پیغام آیا کہ صیہونی حکومت لبنان کے خلاف کسی بھی طرح کی کاروائی کا ارادہ نہیں رکھتی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم صیہونی دشمن کی کسی بات پر یقین نہیں کرتے، اس کی حکومت اور اسکے وزیر اعظم کے پیغام پر بھروسہ نہیں کرتے، اس لئے ہم نے اسرائیل کی جارحیت کے خاتمے تک پوری طرح الرٹ رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ ہم سنہ 2005 میں مزاحمت کی حمایت کے لئے کابینہ میں شامل ہوئے، ہم حکومت سے مزاحمت کی حمایت نہیں چاہتے بلکہ اتنا چاہتے ہیں کہ اس کے ارکان کی پیٹھ میں خنجر نہ مارے۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ کی مراعات حاصل کرنے کے لئے مشرق کے ساتھ عدم تعاون سے، ہم پیشرفت نہیں کر پائیں گے۔ حسن نصر اللہ کا کہنا تھا کہ باوجود اس کے ہمارے پاس سمندری خزانہ موجود ہے مگر پھر بھی ہماری قوم بیروزگاری، مہنگائی اور بھکمری کی تکلیف جھیل رہی ہے، ہم سمندر سے اپنے خزانے کیوں نہ نکالیں، ہم امریکہ کے ڈر سے یہ کام کیوں نہیں کر رہے ہیں؟ کیا امریکہ ناکہ بندی، بھوک اور اسرائیل سے ہمارے خلاف جارحیت کرانے کے علاوہ بھی کچھ اور کر سکتا ہے؟
انہوں نے یہ بات زور دے کر کہی کہ اگر دشمن ہمیں (معدن و توانائی) کے ذخائر کی تلاش میں کھدائي سے روکے گا تو ہم بھی اسے اس کی سرگرمی سے روکنے کی طاقت رکھتے ہیں، لبنان ایک دولتمند اور طاقتور ملک ہے، ہم کیوں خود کو بھکاریوں میں بدلنا چاہتے ہیں کہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ میں بیٹھے ہوئے ہم پر اپنی شرائط تھوپیں؟
سید حسن نصر اللہ نے تحریک امل اور حزب اللہ کو ایک دوسرے کی سپر قرار دیا۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران لبنان اور اسکی داخلی سیاست میں کسی طرح کی مداخلت نہیں کرتا۔ انہوں نے کہا کہ ہم خطے سے مربوط معاملے میں ایران کے شریک ہیں اور ایران ہمارا احترام کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک گروہ ہے جو بیرون ملک سے پیسے لاکر اپنے بینک بیلنس میں اضافہ کر رہا ہے اورعوام کو کسی طرح کا فایدہ نہیں پہونچ رہا ہے، ورنہ سعودی عرب کے 20 ارب ریال اور امریکہ کے 10 ارب ڈالر کہاں چلے گئے؟ تو آپ کو ان دوگروہ میں کسی ایک کو منتخب کرنے کا اختیار ہے ایک وہ جس کا سارا ہم و غم لبنان ہے اور دوسرا وہ جو امریکہ، مغرب اور دوسرے ملکوں کو خوش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
سید حسن نصر اللہ نے داخلی جنگ کو مزاحمتی محاذ کی ریڈ لائن قرار دیا اور بیگانہ ملکوں سے وابستہ اندرونی عناصر کو انتباہ دیا ہے کہ اگر ملک کو داخلی جنگ میں ڈھکیلنے کی انہوں نے کوشش کی تو ایسے عناصر سے سختی سے نمٹا جائے گا۔