سعودی اخـبار کا "ایٹمی" دھماکہ
"گریٹر اسرائیل" کے خواب کو صرف عربی اور اسلامی ایٹم بم ہی ناکام بنا سکتا ہے
سعودی عرب کے اخـبار " عکاظ نے یہ سوال کیا ہے کہ عرب و اسلامی ملک ایٹم بم کیوں نہیں بنا رہے ؟ اس مقالے کے کچھ حصے پیش خدمت ہيں۔
سحرنیوز/عالم اسلام: سعودی عرب کے اخبار "عکاظ" نے اپنے منگل کے شمارے میں صیہونی حکومت کی توسیع پسندانہ پالیسیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ اسرائیلی وزیر اعظم "بنیامین نیتن یاہو" نے عبرانی میڈیا کے لیے اپنے بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ وہ خود کو ایک "تاریخی اور روحانی مشن" پر سمجھتے ہیں اور وہ اب بھی "گریٹر اسرائیل" کے خیال پر قائم ہیں۔
بین الاقوامی کریمینل کورٹ کو مطلوب شخص ایک ایسے خواب کی بات کر رہا ہے جو عرب تہذیبوں اور قوموں کے کھنڈرات پر تعمیر کیا جانا ہے۔
اخبار نے اس سلسلے میں امریکہ کے موقف کا ذکر کرتے ہوئے مزید لکھا ہے: "امریکی نمائندے تھامس بارک نے بھی اپنے ایک بیان میں اس صیہونی وہم کی تصدیق کرتے ہوئے زور دے کر کہا ہے کہ 'سائیکس-پیکو کی سرحدوں کا اسرائیلیوں کے لیے کوئی مطلب نہیں ہے'۔ اس کے علاوہ امریکی صدر نے بھی کئی بار یہ بات کہی ہے کہ اسرائیل کا موجودہ رقبہ چھوٹا ہے اور اس میں توسیع کی ضرورت ہے۔"
سعودی اخبار عکاظ نے لکھا ہے کہ میدان عمل میں، صیہونی حکومت مغربی کنارے اور بیت المقدس میں غیر قانونی کالونیوں میں تیزی سے اضافہ کر رہی ہے اور یہاں تک کہ مغربی کنارے کو مکمل طور پر الحاق کی دھمکی بھی دے چکی ہے۔ ان پالیسیوں کے ساتھ ساتھ، صیہونی حکومت کی جانب سے فسلطینی قوم کا غزہ میں قتل عام ، انہیں بے دخل کرنے نیز لبنان اور شام میں غاصبانہ پالیسیوں اور اقدامات کے ذریعے بھی یہ حکومت اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے کوشاں نظر آتی ہے۔

اس سعودی اخبار نے اپنی رپورٹ میں عرب ممالک، اقوام متحدہ، مغربی ممالک اور بین الاقوامی اداروں کے ناکافی رد عمل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے : "موجودہ رد عمل حالات کی حساسیت اور اہمیت کے تناسب سے کافی نہیں ہیں۔ کیا عرب ممالک کے پاس ایسی حکومت کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت ہے جسے ہر قسم کے ہتھیاروں اور مغرب کی سیاسی و تشہیراتی پشت پناہی حاصل ہے؟"
عکاظ نے زور دے کر لکھا ہے : "غاصب صیہونی حکومت کا خطرہ صرف فلسطین یا عرب و اسلامی ممالک تک محدود نہیں ہے، بلکہ غزہ کی جنگ نے یہ ظاہر کر دیا کہ اسرائیل کی بھوک کا دائرہ افریقہ سے لے کر یورپ اور ایشیا تک پھیلی ہوا ہے۔ اس لیے دنیا کے ممالک پر یہ سنگین ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس نازی اور فاشسٹ حکومت کا محاصرہ کریں اور اسے معاشی، عسکری اور حتی وجودی طور پر ختم کر دیں۔ اس ذمہ داری کا بڑا بوجھ عرب اور اسلامی ممالک پر ہے کہ وہ اپنی عسکری صلاحیتوں، خاص طور پر جوہری ہتھیاروں کے میدان میں، آگے بڑھیں۔"
اخبار نے صاف لفظوں میں لکھا ہے: "آج ہر ملک کی سلامتی اور بقا کی واحد حقیقی ضمانت - افسوسناک طور پر - جوہری ہتھیار میں ہے۔ اس ہتھیار کے بغیر نازی اور فاشسٹ صیہونی حکومت کے ساتھ کوئی بقائے باہمی کا تصور بھی نہیں ہے کیونکہ فاشسٹ صیہونی طاقت کے سوا کوئی اور زبان نہیں سمجھتے۔"
عکاظ نے مزید لکھا ہے: "عرب ممالک کو پہلے ہی جوہری ہتھیار حاصل کرنے میں تاخیر ہو چکی ہے؛ اگرچہ اس سلسلے میں کچھ محدود کوششیں کی گئیں، لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ زیادہ سنجیدگی اور رازداری کے ساتھ عمل کیا جائے۔ غزہ میں جو کچھ ہوا، وہ کسی بھی عرب یا اسلامی ملک میں دہرایا جا سکتا ہے، خاص طور پر اس لئے بھی کیونکہ امریکہ ویٹو کے حق کا استعمال کرتے ہوئے ہمیشہ تل ابیب کے مجرموں کے خلاف بین الاقوامی قوانین کے نفاذ میں رکاوٹ بنتا رہا ہے۔"
اخبار نے مزید لکھا: " جی ہاں، ہمارے ملکوں کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے میں تاخیر ہوئی ہے تاہم یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس راستے کی دشواریوں اور خطرات کو دیکھتے ہوئے وہ معذور تھے لیکن آج ہم ایک ایسی غیر معمولی صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں جس میں ہمارے سامنے ایک ناجائزحکومت ہے جو ایک عظیم تہذیب اور ایک قدیم قوم کو نگلنے پر تلی ہوئی ہے؛ اس تہذیب اور امت کو جس نے انسانی تاریخ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ کیا عربی اور اسلامی تہذیب کو نازی صیہونیوں کا شکار بننے دیا جائے، جو ہر دہائی میں عرب زمینوں کا ایک حصہ نگلتی جا رہی ہے اور اس امت کے لوگوں کو بے گھر کرتی رہی ہے ؟"
عکاظ نے اپنی رپورٹ میں صیہونی حکومت کی پالیسیوں میں طاقت کے منطق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا: "وہ صرف زور کی زبان سمجھتے ہیں۔ اگر عرب ممالک جوہری ہتھیاروں سے لیس ہوتے تو کیا یہ نازی حکومت عرب ممالک کو دھمکانے اور ان کی خود مختاری کی خلاف ورزی کرنے کی جرات کرتی؟ کیا اس ریاست کے متکبر وزیر اعظم کے پاس اگر ہر قسم کے ہتھیاروں، بشمول جوہری ہتھیاروں، کا ذخیرہ نہ ہوتا تو وہ عرب حکومتوں کے خلاف ایسی دھمکیاں دے پاتے؟ کیا اس ریاست کے وزراء نے کھلم کھلا یہ دھمکی نہیں دی کہ وہ غزہ کے بچوں کے خلاف جوہری ہتھیار استعمال کریں گے؟"
اس سعودی اخبار نے مزید لکھا: "غاصب حکومت بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی آئی اے ای اے کو اپنی جوہری تنصیبات کی نگرانی اور معائنے کی اجازت نہيں دیتی تو پھر عرب ممالک کیوں جوہری ہتھیار حاصل کرنے میں تاخیر کر رہے ہیں؟"