حکومت پاکستان کے فیصلے پر کڑی نکتہ چینی
پاکستان کی ساسی اور مذہبی جماعتوں اور تجزیہ نگاروں نے راحیل شریف کی جانب سے نام نہاد سعودی اتحاد کے کمانڈر کا عہدہ قبول کرنے پر کڑی نکتہ چینی کی ہے۔
پاکستان کے وفاقی وزیرعبدالقادر بلوچ نے کہا کہ اس حوالے سے گزشتہ کئی ماہ سے باتیں ہو رہی تھیں اور اگر وہ یہ ذمہ داری قبول کرتے ہیں تو متنازع بن جائیں گے اور جو عزت انہوں نے کمائی ہے اس میں کمی آئے گی۔ مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ مبارک موسوی کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے سابق آرمی چیف کو متنازعہ فوجی اتحاد کی سربراہی کیلئے بھیجنے کا اعلان قوم کو ایک اور دلدل کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہے۔ ذاتی تعلقات پر ملکی مفادات کو داوُ پر لگانے کی قوم اجازت نہیں دے گی، دہشتگردوں کے سرپرست دنیا بھر میں شکست کھا رہے ہیں، آج مسلم امہ کے درمیان اختلافات کے خاتمے کے لئے کردار ادا کرنے کا وقت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری کمزور خارجہ پالیسی موجودہ حکومت کی ناکامی کا ثبوت ہے۔ پاکستان کو مسلم ممالک کے درمیان اتحاد و یکجہتی کے لئے کردار ادا کرنا چاہیے۔ پاکستان کے ممتاز تجزیہ نگارڈاکٹرابوبکرعثمانی نے جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف کوسعودی درخواست پرفوجی اتحاد کی قیادت سنبھالنے کیلئے جاری ہونے والے این او سی پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نہ پہلے غیر جانبدار تھا اور نہ آج غیر جانبدار ہے اور نہ ہی ایسا ممکن ہے۔
حکومت کی جانب سے جنرل راحیل شریف کو این او سی جاری کرنا اگرچہ ایک فارمیلٹی ہے، مگر اس بات کا اعلانیہ اقرار بھی ہے کہ پاکستان نے اپنا وزن یمن پر حملہ آور جارح اتحاد کے پلڑے میں ڈال دیا ہے اور یہ معاملات تو پہلے سے ہی طے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ معاملات ملکوں کے مابین نہیں بلکہ حکمران خاندانوں کے درمیان طے پائے۔ دو ایسے حکمران خاندان کہ جو محض اپنے اقتدار کو دوام دینے کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ ڈاکٹرابوبکرعثمانی کا کہنا تھا کہ یمن کمزور، مظلوم اورغریب مسلمان ملک ہے جبکہ سعودی عرب اور اس کا اتحاد جارح، غاصب اور حملہ آور ہے۔ اس فیصلے سے حکومت نے ایک مرتبہ پھر ثابت کیا ہے کہ ان کے نزدیک اخلاقی اقدار یا عوامی رائے کی کوئی اہمیت نہیں ہے، بلکہ ذاتی مفادات کا تحفظ ہی مطمع نظر ہے۔
واضح رہے کہ کل نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان کے وزیردفاع خواجہ آصف نے انکشاف کیا کہ سعودی حکومت نے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو 39 ممالک کے اتحاد کا سربراہ بنانے کے حوالے سے تحریری درخواست کی تھی جس کی اصولی منظوری دے دی گئی ہے اور اس حوالے سے سعودی حکومت کو تحریری طور پر پیغام پہنچا دیا گیا ہے تاہم راحیل شریف کو مسلم ممالک کے فوجی اتحاد کی سربراہی کے لئے باقاعدہ طور پر کوئی رسمی کارروائی نہیں ہوئی۔ پاکستان کی پارلیمنٹ نے یمن کی جنگ میں پاکستانی فوج کو غیرجانبدار رہنے کی قرارداد متفقہ طور پرمنظور کی تھی جس یہ پاسداری نہیں کی جا رہی ہے۔