موجودہ بحرانی صورتحال میں پاکستان کا کیا ہے موقف؟
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ میری ہمیشہ سے خواہش تھی کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی آزاد ہو۔
موصولہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے پیر کو قوم سے خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملکی خارجہ پالیسی پر خصوصی طور پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں نے حال ہی میں دو دورے کئے، ان میں سے ایک چین اور دوسرا روس کا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں تیزی سے صورتحال بدل رہی ہے اور اس کے پاکستان پر اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب سے میں نے سیاست شروع کی تو میری ہمیشہ سے خواہش تھی کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی آزاد ہو، آزاد خارجہ پالیسی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ قوم اپنے لوگوں کے فائدے کے لیے خارجہ پالیسی بنائے اور وہ پالیسی نہ بنائے جو کسی اور کے فائدے کا سبب بنے اور اپنے ملک کو نقصان پہنچا دے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے جب امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حصہ لیا تو میں شروع سے کہتا تھا کہ ہمارا اس جنگ سے کوئی تعلق نہیں تھا، 9/11 میں کوئی پاکستانی ملوث نہیں تھا، میں اس وقت سے کہتا تھا کہ ہمیں اس میں شرکت نہیں کرنی چاہیے۔
عمران خان نے کہا کہ ہم نے پہلے امریکا کی جنگ میں سوویت یونین کے خلاف شرکت کی اور جب 10سال کے بعد پھر شرکت کی تو پہلے وہ جہاد تھا لیکن جب امریکا افغانستان آیا تو اس نے اسے دہشت گردی کا نام دے دیا، میں اس پالیسی کے خلاف تھا کیونکہ یہ خارجہ پالیسی پاکستانیوں کے فائدے کے لیے نہیں بنائی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس جنگ کی وجہ سے 80 ہزار پاکستانیوں کی شہادتیں ہوئیں، 35 لاکھ لوگوں کی نقل مکانی ہوئی، قبائلی علاقہ تباہ ہوا، ملک کو 150ارب ڈالر سے زائد نقصان ہوا لیکن اس کی سب سے شرمناک بات یہ تھی کہ دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک ملک کسی کی حمایت میں جنگ لڑ رہا تھا اور وہ ملک اسی ملک پر بمباری کر رہا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں 400 سے زائد ڈرون حملے کیے گئے، جنرل مشرف کے دور میں صرف 10 ڈرون حملے کیے گئے لیکن جو دو جمہوری لیڈرز آصف زرداری اور نواز شریف آئے تو ان کے 10سال میں 400 ڈرون حملے کیے گئے۔
وزیراعظم نے کہا کہ آزاد خارجہ پالیسی ہوتی تو ان دونوں رہنماؤں کو امریکا کو کہنا چاہیے تھا کہ آپ کی بمباری سے ہمارے بچے، عورتیں اور بے قصور لوگ مر رہے ہیں، تو کیا اس وقت دو جمہوری رہنماؤں کو اس پر کوئی اسٹینڈ نہیں لینا چاہیے تھا، اس پر ایک بیان تک نہیں دیا بلکہ امریکی صحافی نے اپنی کتاب میں لکھا کہ آصف زرداری نے امریکی آرمی چیف سے کہا کہ ڈرون حملوں میں کو لیٹرل نقصان سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ اس لیے تھا کہ یہ ملک کی بہتری کے بجائے اپنے پیسے بچانے کے لیے کرتے ہیں اور آج جنگ کے آغاز کے بعد سے روس کے بڑے بڑے کاروباری افراد کے امریکا اور برطانیہ نے اپنے بینکوں میں موجود اثاثے منجمد کرنے شروع کردیئے ہیں، اس لیے ہمارے ملک کی پالیسی آزاد ہو ہی نہیں سکتی۔
انہوں نے قوم کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ اگر آپ اس ملک میں آزاد خارجہ پالیسی چاہتے ہیں تو کبھی اس پارٹی کو ووٹ نہ دیں جس کے پیسے، دولت اور جائیداد پاکستان سے باہر پڑی ہے کیونکہ وہ کبھی آزاد خارجہ پالیسی نہیں بنائیں گے۔
عمران خان نے کہا کہ میں نے جتنے بھی دورے کیے جس میں دو چین کے اہم دورے تھے، اس میں ہمارے ملک کو بھی عزت ملی اور وقت ثابت کرے گا کہ ہم نے چیبن اور روس دونوں جگہ زبردست بات چیت کی۔
انہوں نے دورہ روس کی وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں روس اس لیے جانا تھا کیونکہ ہمیں 20 لاکھ ٹن گندم روس سے امپورٹ کرنی ہے اور دوسری اہم چیز یہ ہے کہ روس دنیا کا وہ ملک ہے جس میں دنیا کی 30 فیصد گیس ہے، تو پاکستان کی گیس میں کمی کے پیش نظر ہم نے ان سے گیس کے معاہدے کیے ہیں اور ہم ان سے گیس امپورٹ کریں گے جبکہ چین سے ہونے والے معاہدے خصوصاً سی پیک کے دوسرے مرحلے کے حوالے سے بھی تفصیلات سامنے آ جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ پیٹرول کی قیمت میں 10 روپے اور بجلی کی قیمت فی یونٹ 5 روپے کم کی جائے گی اور اگلے بجٹ تک دونوں چیزوں کی قیمت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔
انہوں نے کورونا کی وجہ سے دنیا بھر مین بڑھتی ہوئی مہنگائی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ 40 سال میں سب سے زیادہ مہنگائی دنیا کی تگڑی ترین معیشت امریکا میں ہوئی، وہاں 1.5 فیصد سے زیادہ اشیا مہنگی نہیں ہوتیں لیکن وہاں مہنگائی 7.5 فیصد تک پہنچ گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ کینیڈا میں 30 سال کے بعد سب سے زیادہ مہنگائی آئی، برطانیہ میں 1992 کے بعد سب سے زیادہ مہنگائی آئی جبکہ ترکی میں بھی 20 سال بعد سب سے زیادہ مہنگائی ہوئی۔