فرزند خمینی اور اتحاد بین المسلمین کے داعی شہید عارف حسین الحسینی کی برسی
سید عارف حسین الحسینی پاکستان کے معروف شیعہ عالم دین، تحریک جعفریہ پاکستان کے صدر اور شیعہ قوم کے محبوب قائد تھے۔ آپ نجف اور قم کے حوزہ ہائے علمیہ میں وہاں کے مشہور فقہاء منجملہ حضرت امام خمینی (رح) کے شاگردوں میں سے تھے۔
پاکستان کے شہید قائد علامہ سید عارف حسین الحسینی بن سید فضل حسین 25 نومبر 1946 ء کو ملک کے شمال مغربی شہر پاراچنار کے نواحی گاؤں پیواڑ کے ایک مذہبی، علمی اور سادات گھرانے میں پیدا ہوئے۔
سید عارف حسین حسینی نے اپنی طفولیت اپنے آبائی گاؤں میں گذارا جہاں انہوں نے قرآن کریم اور ابتدائی دینی تعلیمات اپنے والد کے حضور مکمل کرلیں۔ ان کے والد بھی علماء دین میں سے تھے۔ بعد ازاں انہوں نے اسکول میں داخلہ لیا اور پرائمری اور متوسطہ کے بعد پاراچنار کے ہائی اسکول میں داخل ہوئے۔ 1964 میں ہائی اسکول سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد علوم آل محمد سے روشناس ہونے کیلئے مدرسہ جعفریہ پاراچنار میں داخلہ لیا جہاں انہوں نے "لقمانخیل” کے گاؤں "یوسف خیل” کے رہنے والے حاجی غلام جعفر سے کسب فیض کیا اور مختصر سے عرصے میں مقدمات (ادبیات عرب) مکمل کر لئے۔ آپ کو اپنی مادری زبان پشتو کے علاوہ فارسی، عربی اور اردو پر بھی عبور حاصل تھا ۔
شہید علامہ سید عارف حسین حسینی 1967 میں نجف اشرف مشرف ہوئے اور نجف ـ اور بعدازاں قم ـ میں عربی ادب کے نامور استاد مدرس افغانی کے ہاں ادبیات عرب کے تکمیلی مراحل طے کئے اور ساتھ ساتھ مختلف اساتذہ کے ہاں فقہ اور اصول فقہ کے اعلی مدارج طے کئے۔
علامہ سید عارف حسین حسینی نجف اشرف میں آیت اللہ مدنی کے حلقۂ درس میں شریک ہوئے اور ان کے توسط سےحضرت امام خمینی (رح) کی شخصیت اور کارناموں سے واقف ہوئے۔ 1973ء میں انقلابی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے الزام میں عراق کی بعثی حکومت نے انہیں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا اور کچھ عرصہ بعد ملک بدر کردیا۔
وطن واپسی کے بعد تقریبا 10 مہینوں تک پاراچنار میں تبلیغ دین میں مصروف رہے۔
1974ء میں آپ نے دوبارہ اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے اور نجف اشرف جانے کا فیصلہ کیا لیکن حکومت عراق نے انہیں ویزا دینے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ وہ اسی سال قم روانہ ہوئے اور حوزہ علمیہ قم کے اساتذہ شہید استاد مرتضی مطہری، آیات عظام مکارم شیرازی، وحید خراسانی، میرزا جواد تبریزی، محسن حرم پناہی اور سید کاظم حائری سے فلسفہ، کلام، فقہ، اصول اور تفسیر جیسے علوم میں کسب فیض کیا۔
قم میں رہائش اور حصول علم کے دوران وہ پہلوی حکومت کے خلاف علماء اور عوام کے احتجاجی مظاہروں میں شرکت کرتے تھے لہذا انہیں گرفتار کیا گیا۔ انہیں ایک ضمانت نامے پر دستخط کرنے کیلئے کہا گیا کہ "وہ مظاہروں اور انقلابی قائدین کی تقاریر میں شرکت نہیں کریں گے اور انقلابی راہنماؤں سے کوئی رابطہ نہیں رکھیں گے” لیکن انہوں نے اس پر دستخط کرنے سے انکار کیا چنانچہ جنوری 1979 میں انہیں ایران چھوڑ کر پاکستان واپس جانا پڑا۔
علامہ عارف حسین حسینی پاکستان میں عوام کے مذہبی، ثقافتی اور عبادی ضروریات فراہم کرنے کے علاوہ صحت اور معیشت کے لحاظ سے بھی ان کے مسائل کو حل کرتے تھے۔
آپ 5 اگست 1988 کی صبح کو پشاور میں اپنے مدرسے میں صبح کے نماز کے بعد سامراجی ایجنٹوں کی گولی کا نشانہ بن کر جام شہادت نوش کرگئے۔
بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح) نے شہید عارف حسین الحسینی کے جنازے میں شرکت کے لئے ایک وفد پاکستان بھیجا اور ان کی شہادت کے موقع پر پاکستان کے علماء اور قوم و ملت کے نام اپنے پیغام میں انہیں اپنا "فرزند عزیز” قرار دیا۔ آیت اللہ جنتی نے نماز جنازہ کی امامت کی۔ بعدازاں شہید کی میت ہیلی کاپٹر کے ذریعے ان کے آبائی شہر منتقل ہوئی اور ان کی تدفین ان کے آبائی گاؤں پیواڑ میں ہوئی۔
پاکستان میں اتحاد بین المسلمین کے داعی شہید عارف حسین الحسینی کی مسلمانوں کے مابین اتحاد و وحدت کی برقراری کیلئے کی جانے والی کوششوں پر پاکستان کی اہم شخصیات اور شیعہ اور سنی علمائے کرام نے خراج تحسین پیش کیا ہے۔
سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا نے کہا ہے کہ علامہ عارف حسین الحسینی نے حق اور سچ کی بات کی، آج دوبارہ اسی آواز کو بلند کرنے کی ضرورت ہے۔
سحرعالمی نیٹ ورک علامہ شہید عارف حسین الحسینی کی 34 ویں برسی کے موقع پر ان کے چاہنے والوں کو تعزیت پیش کرتا ہے۔