فوجی عدالتوں کی کارروائی پر حکم امتناع کی استدعا مسترد
سویلین افراد کے فوجی ٹرائل کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کی کارروائی روکنے کی استدعا اٹارنی جنرل کی یقین دہانی پر مسترد کردی۔
سحر نیوز/ پاکستان: چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں چھ رکنی لارجر بینچ نے سویلین افراد کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف درخواستوں کی سماعت کی ۔
دوران سماعت اٹارنی جنرل نے فوج کے زیر حراست افراد سے متعلق تین یقین دہانیاں کروا دیں۔ انہوں نے بتایا کہ نہ ہی زیر حراست کسی فرد کا فوری ٹرائل ہوگا نہ ہی سمری ٹرائل ہوگا، کسی بھی زیر حراست شخص کو سزائے موت نہیں دی جائے گی، وکیل مقرر کرنے کا موقع دیا جائے گا اور لواحقین کو بیان کی کاپی بھی فراہم کی جائے گی ۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم آپ کے اس بیان کو عدالتی آرڈر کا حصہ بنائیں گے۔
اٹارنی جنرل نے یقین دہانی کروائی کہ قانون کے مطابق ٹرائل کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں گے اور ابھی ملزمان کے حوالے سے تحقیقات جاری ہیں، تحقیقات حتمی ہو بھی جائیں تو پھر بھی ٹرائل میں وقت درکار ہوگا، سمری ٹرائل نہیں کیا جائے گا اور ٹرائل شروع ہو بھی گیا تو ملزمان کو وکلاء کرنے کی مہلت دی جائے گی۔
چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ ملزمان کو چارج کی نقول فراہم کی جائیں۔
درخواست گزار وکلاء نے استدعا کی عدالت آئندہ سماعت تک فوجی عدالتوں کی کارروائی روک دے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ابھی ہم حکم امتناعی نہیں دے رہے، میں عید کے فوری بعد دستیاب ہوں گا، کوئی اہم پیش رفت ہوتی ہے تو مجھے آگاہ کیا جا سکتا ہے۔
قبل ازیں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں اٹارنی جنرل نے سویلینز کے ٹرائل شروع ہونے پر وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت کسی سویلین کا ٹرائل نہیں چل رہا۔