پارا چنار کا نوحہ اور حکومت کی بے حسی
پاکستان کی صوبائی اور مرکزی حکومت پاراچنار کے عوام کو انصاف فراہم کرنے میں بری طرح ناکام ہو گئی ہے۔
سحر نیوز/ پاکستان: پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں امن و امان کی صورت حال معمول پر نہ آسکی ۔ پاراچنار ٹل مین شاہراہ آج 85 ویں روز بھی ہر قسم آمد و رفت کیلئے بند ہے جبکہ اپر کرم کو سپلائی معطل ہے۔
دوسری جانب ضلع میں قیام امن کیلئے کمشنر ہاؤس کوہاٹ میں گرینڈ جرگہ آج ہوگا۔ ذرائع کے مطابق معاہدے پر دستخط کرنے والے ایک فریق کے مشران کئی دن سے کوہاٹ میں موجود ہیں۔
راستوں کی بندش کے باعث اشیائے خوردونوش کا فقدان ہے اور شہری پریشان ہیں ۔ کرم پریس کلب کے باہر احتجاجی دھرنا آج بارہویں روز بھی جاری ہے۔ مقامی رجسٹرڈ تنظیم سول سوسائٹی کے مطابق علاج و سہولیات نہ ملنے کے باعث 128 بچوں سمیت 200 جاں بحق ہوگئے ہیں ۔
خیبرپختونخوا کے علاقے پارا چنار میں کئی ماہ سے جاری فرقہ وارانہ جنگ میں بڑے پیمانے پر جانی نقصانات جس درجہ المناک اور لائق تشویش ہیں وہ محتاج وضاحت نہیں ۔
یہ وہ علاقہ ہے جہاں شہید سید عارف حسین الحسینی نے آنکھیں کھولیں اور انہوں نے پورے پاکستان کے عوام کو اتحاد بین المسلمین کا درس دیا اور وہ پاکستان میں اتحاد بین المسلمین کے داعی تھے اور انہوں نے اس علاقے بلکہ پورے پاکستان سے شیعہ اور سنی کے مسئلے کو ختم کر کے عالمی سامراج کو بتا دیا تھا کہ ہم سب مسلمان ہیں اور جو کوئی بھی شیعہ اور سنی کے مابین تفرقہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے وہ نہ شیعہ ہے اور نہ سنی بلکہ استعمار کے ایجنٹ ہیں ۔
لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اتحاد بین المسلمین کے داعی کے علاقے کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت فرقہ واریت کے دلدل میں دھکیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اور یہاں کے لوگ ایک طرف ریاستی غفلت اور دوسری طرف دہشت گردوں کے ظلم و ستم کا شکار ہیں اور ان کے پاس نہ تو ریاست کی مکمل حمایت ہے اور نہ ہی ان کے لیے زندگی کی بنیادی ضروریات کا کوئی صحیح انتظام۔
پاراچنار میں ہونے والی اس بربریت نے لوگوں کے دلوں میں نفرت کا ایک ایسا بیج بو دیا ہے جس کا ختم ہونا مشکل دکھائی دیتا ہے۔
دہشت گردی کی یہ کارروائیاں مقامی لوگوں کے ذہنوں پر گہرے اثرات چھوڑ رہی ہیں ۔ وہ مسلسل خوف میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور ان کا مستقبل غیر یقینی ہے۔
اس تشدد کی ایک افسوسناک حقیقت یہ بھی ہے کہ یہ فسادات اکثر سیاسی فائدے کے لیے کیے جاتے ہیں جس سے اس علاقے میں مزید خونریزی کو بڑھاوا ملتا ہے۔
راستوں کی بندش نے خوراک اور ادویات کی شدید قلت جیسے مسائل بھی پیدا کردیے ہیں ۔ یہ صورتحال صوبائی حکومت اور مقامی انتظامیہ کی واضح ناکامی ہے جس پر صوبے کے لوگ اپنی حکومت سے باز پرس اور احتجاج کا پورا حق رکھتے ہیں۔