سائنسدانوں کا انقلابی اقدام، الٹراساؤنڈ اسٹیکر کی شکل میں
سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے الٹراساؤنڈ کو انتہائی مختصر کرکے اسٹیکر میں ڈھالا ہے جنہیں جسم کے باہر پیوست کرکے کم ازکم 48 گھنٹے تک دل، گردوں اور دیگر اعضا کی منظر کشی کرکے بہتر طبی فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔
سحر نیوز/ سائنس اور ٹکنالوجی: ابتدائی الٹراساؤنڈ اسٹیکر کی جسامت محض ایک ڈاک ٹکٹ جتنی ہے اور جسے پیٹ اور سینے پر لگا کر معدے اور پھیپھڑے کی مسلسل تصویر کشی کی جاسکتی ہے۔ بعض طبی معاملات، ورزش اور دیگر امور میں کئی گھنٹوں تک جسمانی الٹراساؤنڈ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح ورزش میں دل کی کیفیات کو اچھی طرح دیکھ کر ڈاکٹر مرض کا بہتر فیصلہ بھی کرسکتے ہیں۔
یہ تحقیق میسا چیوسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کے زوان ہے ژاؤ اور ان کے ساتھیوں نے کی ہے جسے وہ ’ویئرایبل امیجنگ‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔ الٹراساؤنڈ اسٹیکر لچکدار مٹیریئل سے بنایا گیا ہے کیونکہ ایک جانب تو اسے متحرک بدن پر چپکنے کے لیے بنایا گیا ہے اور دوسری جانب الٹراساؤنڈ کی صلاحیتیں بھی برقرار رکھنا تھیں۔ اس طرح الٹراساؤنڈ پیوند اعلیٰ معیار کی تصاویر فراہم کرنے لگے۔
اس کی تیاری کے لیے سائنسدانوں نے سخت ٹرانسڈیوسر کو نرم چپکنے والے مادے میں رکھا۔ اس پیوند میں ہائیڈروجل بھی لگایا گیا ہے جو الٹراساؤنڈ لہروں کے اخراج میں مدد دیتا ہے۔ ہائیڈروجل کو دو لچکدار ایلاسٹومر کے درمیان رکھا جاتا ہے تاکہ پورا نظام خشک نہ ہوجائے۔
تجرباتی طور پر 15 افراد کے سینے، بازو، گردن اور کمر پراسٹکر لگائے گئے اور انہیں ایک کمرے میں پھلوں کا رس پلایا گیا، وزن اٹھوائے گئے، دوڑایا گیا اور سائیکل چلانے کوکہا گیا۔ اس دوران اسٹیکر مسلسل الٹراساؤنڈ خارج کررہا تھا اور ڈاکٹروں نے پھیپھڑوں، پیٹ، دل اور مرکزی شریانوں کی پھیلاؤ می کمی بیشی نوٹ کی جو ایک حیرت انگیز عمل ہے۔
لیکن سارے اسٹیکر تار سے جڑے تھے جن کا ڈیٹا کمپیوٹر تک جاکرالٹراساؤنڈ تصاویر بنا رہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تاروں کی ضرورت ختم کرنے کےلیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
اس کے باوجود بھی ماہرین نے اس ٹیکنالوجی کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس عمل میں سند یافتہ ماہر سونوگرافر کی ضرورت نہیں رہتی اور بھاری بھرکم الٹراساؤنڈ کی اہمیت بھی ختم ہوجائے گی۔ اس طرح کووڈ 19 کے مریضوں کے پھیپھڑوں کا مسلسل خیال رکھنا ممکن ہوگا اور اسی طرح طبی نگہداشت میں انقلاب رونما ہوگا۔