افکار شہید مطہری رضوان اللہ تعالی علیہ
متفکرین کو چاہئیے کہ وہ شہید مطہری کی کتابوں کو مورد توجہ قرار دیں اور علمی تنقید کے ساتھ بحث کو آگے بڑھائیں اور جس سطح پر افکار کی بنیاد شہید مطہری نے رکھی ہے اُس پر جدید فکری بنیادوں کو تعمیر کریں۔۔
شہید مطہری ، حیات اور خدمات استاد علامہ شہید مطہری کی شہادت 12ردیبہشت ۱۳۵۸ ہجری شمسی مطابق 2 مئی 1979ء میں اس وقت ہوئی کہ جب آپ ایک سیاسی ،فکری اہمیت کے حامل اہم ترین جلسے میں شرکت کرکے باہر نکلے ،تو آپ کے سر میں گولی مار کر آپ کو شہید کر دیا گیا - |
دنیا میں لوگوں کی آمد و رفت کا سلسلہ ہزاروں سال پرانا ہے اور نہ جانے کب تک چلتا رہے گا ،قدرت کی پیدا کردہ اس خاک نے کتنے پیکر ایسے بنائے کہ جن کے کارناموں نے اس سر زمین کا سر عرشیوں کے سامنے فخر سے اونچا کر دیا ،چنانچہ ایک دن وہ آئے گا کہ جب یہ خاک ان کے نورانی کارناموں کو فخر کے ساتھ بیان کرے گی اور ان رشک آسمان خاکی انسانوں کی حیات کے ایک ایک درخشان لمحے کواتنے حسین اور رسا انداز میں بیان کرے گی کہ فرشتے جس کو سن کر عش عش کر اٹھیں گے " يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا ۔ بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحَى لَهَا "اور پیکر خاکی کو وجود میں لاکر اسکو اپنی روح سے سرشار کرنے والی ذات ملکوتیوں کی بزم میں اعلان کرے گی" إِنِّي أَعْلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُونَ " ۔
تاریخ کا دامن ایسے انسانوں سے خالی نہیں کہ جو نہ صرف دنیا میں آئے بلکہ اپنی پاک فطرت کے ساتھ علم اور تقوے سے سر شار ایک ایسی جاویدانی زندگی لے کر آئے کہ جس کی نورانی شعاعوں نے نہ صرف ان کے اطراف کی پوری دنیا بلکہ پوری انسانیت کو روشن کیا اور جاتے وقت ایک طرف اگر ایک عہد کو اپنے ساتھ لے گئے تو دوسری طرف پوری ایک تاریخ کو اپنے پیچھے چھوڑ کر چلے گئے ۔ایسے لوگوں کو اگر کوئی یاد کرتا ہے تو اس کو باقی رکھنے کے لیے نہیں بلکہ ان کی یاد میں اپنی بقا کا راز ڈھونڈھنے کے لیے ان کو یاد کرتا ہے ۔
تیرہ بھمن ۱۲۹۸ ہجری شمسی مطابق 3 فروری 1929 ء کے دن مشہد مقدس سے ۷۵ کیلو میٹر کے فاصلے پر واقع فریمان نام کے ایک علاقے میں ایک نہایت اصیل علمی گھرانے میں اس دار نادار میں جس نو زاد نے آنکھ کھولی تھی کسی کو کیا معلوم تھا کہ وہ نو نہال ایک ایسی تاریخ رقم کرے گا کہ زمانہ جس کو بھولنا بھی چاہے تو نہیں بھول پائے گا ۔
ابتدائی تعلیم
ایک مکتب سے ابتدائی دروس کے ذریعے شہید مرتضی مطہرے نے اپنے جس علمی سفر کا آغاز کیا تھا اس کا پہلا پڑاو مشہد مقدس تھا ،جہاں سے انہوں نے علوم اسلامی کے مقدمات کو اپنے سفر کا توشہ بنایا اور سال ۱۳۱۶ھ ش مطابق1938ء میں رضا خان کی شدت کے ساتھ علماء کی مخالفت ،اور ان کے ساتھ ہر طرح کی بد سلوکی کا نظارہ گر ہوتے ہوئے ،اور رشتے داروں کے منع کرنے کے باوجود ،آشیانہء آل محمد ،قم المقدسہ میں رحل اقامت نصب کر کے ۱۵ سال کی مدت میں حوزے کے نامور اساتذہ یعنی مرحوم آیۃ اللہ العظمی بروجردی حضرت امام خمینی ۔ مرحوم علامہ سید محمد حسین طبا طبائی سے ،فقہ ،اصول فقہ ، فلسفہء ملا صدرا ، عرفان ، اخلاق ،اصول اور الہیات شفائے بو علی اور دیگر دروس کے آب زلال سے اس قدر سیراب ہوئے کہ اس کے بعد تشنگان علم و عرفان کے لیے آب زلال کا چشمہ بن گئے ۔
شہید مرتضی مطہری نہ صرف ایک انتہائی وزین علمی شخصیت کے مالک تھے ،بلکہ اس الہی روح کے حامل خاکی انسان کے اندرایک ایسا انسان چھپا ہوا تھا جو انسان دوست تھا انسانیت کا ہمدرد تھا ،یہی وجہ ہے کہ قم المقدسہ کے قیام کے دوران اس کی عالمانہ زندگی نے عروج علمی کے زینے طے کرنے کے ساتھ ساتھ اجتماعی اور سیاسی میدانوں میں بھی اپنی قابلیت و صلاحیت کا لوہا منوا لیا ، اور علم کو کتابوں سے نکال کر عملی میدان میں لے آئے جس کا بین ثبوت فدائیان اسلام کے ساتھ ان کا تنگا تنگ رابطہ تھا ۔
قم سے تہران کی جانب ہجرت
سال ۱۳۳۱ ھ ش مطابق 1953میں عین اس وقت کہ جب استاد مطہری اسم با مسمی حوزے کے نامور اساتید میں شمار ہونے لگے تھے اور حوزے کے مستقبل کی امید بن گئے تھے ، اس روح مطہر نے گہوارہء علم کو خیر باد کہہ کر ان لوگوں کے درمیان میں جا کر رہنے کا فیصلہ کیا کہ جن کو علم و معرفت کی ضرورت تھی ،اور مستقبل میں ایک عالمی اسلامی تحریک کو جنم دینے کے لیے جن کو آمادہ کرنا تھا ،تا کہ ایک ایسا انقلاب وجود میں لایا جا سکے جو عصر حاضر کی دنیا کو اس دور کی ترقیوں کی چاشنی سے آشنا بھی کرے اور اسے چودہ سو سال پہلے آئے ہوئے دائمی اور قیامت تک رہنے والے خدائی قانون کی مضبوط پکڑ اور اس کی حقانیت اور حقیقت کو مومنین اور مخلصین کے ایمان پرور دلوں کے اندر سے نکال کرمعاشرے کے ہر فرد کو اس پرعمل کرنے کا سلیقہ سکھا سکے ۔
جو لوگ اخلاق الہی سے متخلق ہوتے ہیں ان کی فکر جولان اور ذات الہی مقاصد کے حصول کے پیچھے رواں دواں ہونے کی وجہ سے ان کے اندر سیمابی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اورارشاد و ہدایت کے کام ان کی زندگی کا خاصہ بن جاتے ہیں ،کچھ یہی کیفیت شہید مرتضی مطہری کی بھی تھی ،وہ تہران میں مدرسہء مرویہ میں تدریس ہو یا تالیف و تحقیق کا کام ہو ،تقریروں کا سلسلہ ہو یا انجمنوں کی بنیاد ڈالنا ہوخدا کے اس مومن بندے نے طلاب کی علمی تشنگی بھی بجھائی اور انجمنوں کی رہنمائی بھی کی یہاں تک کہ جب ڈاکٹروں کی اسلامی انجمن کی تشکیل ہوتی ہے تو1962 سے 1972 ء تک اس انجمن کے واحد مقرر پورے دس سال کے عرصے کے لیے استاد مطہری تھے ،اس دور کی انتہائی علمی بحثین آپ کی یادگار ہیں کہ جو آنے والی نسلوں کی علمی پیاس کو بجھاتی رہیں گی اور متلاشیان راہ حق کی ہدایت کرتی رہیں گی ۔
آیۃ اللہ مطہری اور امام خمینی کی معیت و اطاعت
اس پورے دور میں اور تمام تر علمی سماجی ،ثقافتی مشاغل اور دیگر نمایاں کاریوں کے باوجود امام خمینی کا یہ شاگرد امام اور انقلاب سے ایک لمحے کے لیے بھی الگ نہیں ہوا ،اور تہران میں امام خمینی کی رہنمائی میں ۱۵ خرداد جیسی انقلاب آفرین تحریکوں کا جنم مطہری کی پاک کوششوں کا نتیجہ تھا کہ جس کی پاداش میں ۴۳ دن تک اس اسوہء زہد و تقوی اور علم و آگاہی کو بڑی تعداد میں دیگر علماء کے ساتھ قید و بند کی کٹھنائیوں میں رہنا پڑا ۔
آیۃ اللہ مطہری اور اسلامی انجمنوں کی سرپرستی
جب امام خمینی رہ نے آپ کو کچھ دیگر علماء کے ساتھ اسلامی انجمنوں کی سر پرستی کی خطیر ذمہ داری سونپی تو آپ کی قائدانہ صلاحیتیوں نے وہ کرشمے دکھائے کہ وہ اپنی تمام انجمنوں سمیت شاہ کے نوکروں کی آنکھوں میں کھٹکنے لگے اور قریب تھا کہ ان کو گرفتارکرکے ان کا کام تمام کر دیا جاتا لیکن ایک مومن کی نصرت کام آ گئی کہ جو قضاوت کے محکمے میں تھا اور قم میں کچھ عرصے تک آپ کے شاگردوں کے حلقے میں رہ چکا تھا ،چنانچہ آپ گرفتار ہونے سے بچ گئے ۔
لکھنا اور پڑھنا ایک عالم کا سب کچھ ہوتا ہے یہی وجہ تھی کہ شہید مطہری نے انجمنوں کی سر پرستی ،مسجدوں کی امامت ، بیش بہا اور محققانہ تقریروں کے سلسلے کو ۔ مسجد ہدایت ،اور مسجد جامع نارمک وغیرہ میں جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ لمحے بھر کے لیے بھی اس جامع علوم و فنون شخصیت نے تصنیف و تالیف سے ہاتھ نہیں روکا ،اور تالیفی کام میں دقیق اور بھاری علمی بحثوں سے گریز کرتے ہوئے کہ جو صرف علماء کے کام آتی ہیں اور ایک خاص طبقہ جن کا مخاطب ہوتا ہے ،آپ نے سماج کے فکری لحاظ سے متوسط طبقے اورعوام کو مخاطب بنایا ،اور دقیق فلسفی ،علمی اور فقہی و اصولی بحثوں کو الفاظ کے مناسب قوالب میں ڈھال کر ان کو عوام کے دل و دماغ تک پہنچایا ،اور اس سلسلے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں کی جو ایک مرد مجاہد کا خاصہ ہوتا ہے ۔
استاد کا تحریکی نظریہ
استاد آیتہ اللہ مطہری تحریک کے قایل تھے لیکن ہر طرح کی تحریک کے نہیں بلکہ ایک اسلامی تحریک کے قایل تھے ،اور انہوں نے اس کو اسلامی بنانے کے لیے عقیدے اور آیڈیالوجی کی مضبوط بنیادیں فراہم کیں ،امام باڑے تعمیر کروائے ،تحریر و تقریر دونوں طریقے سے ہر طرح کی گمراہی اور کج روی کا مقابلہ کیا ،لیکن چاہے وہ مدارس کی تاسیس ہو یا امام باڑوں کی تعمیر ہو یا مسجدوں کی ایجاد ہو یہ ساری چیزیں ہدف اور مقصد نہیں ہوتیں بلکہ مقصد تک پہنچنے کے وسایل ہوتے ہیں ،چنانچہ اگر ایک مسجد مسجد ضرار ہو سکتی ہے تو ایک حسینیہ بھی حسینیہء ضرار ہو سکتا ہے ،یہی وجہ تھی کہ شہید مطہری نے1968 میں کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر حسینیہء ارشاد[امام باڑہ ارشاد] کی بناد رکھی ،لیکن جب دیکھا کہ اس کی اداری کمیٹی کے کچھ لوگ کجروی کا شکار ہیں اور وہ شہید مطہری کے علمی اصلاحی منصوبوں کے عملی جامہ پہننے کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں تو1971 میں اس کے باوجود کہ آپ نے اس کی بنیاد ڈالنے میں بہت زحمتیں برداشت کی تھیں اور آپ کو اس سے بہت امیدیں تھیں ،آپ نے اس کی اداری کمیٹی کی رکنیت سے استعفی دے دیا اور کنارہ کش ہو گئے ۔
شہید مطہری اور فلسطینی مظلومین کی حمایت
سال1970 میں آپ کے اور حضرت علامہ طبا طبائی اور آیۃ اللہ حاج سید ابو الفضل مجتہد زنجانی کے دستخط سے فلسطینی بے گھروں کی مدد کرنے کے لیے ایک پوسٹر کے منظر عام پر آنے کے بعد اور اس کے بارے میں حسینیہء ارشاد میں اس سلسلے میں ایک تقریر کرنے کی پاداش میں آپ کو گرفتار کر کے مختصر مدت کے لیے قید تنہائی میں ڈال دیا گیا لیکن جو شخص اپنے آپ میں ایک انجمن ہو اس کے لیے قید تنہائی کوئی مشکل ایجاد نہیں کر سکتی،1971 سے1973 تک مسجد الجواد کے سارے تبلیغی پروگرام آپ کی نظارت میں انجام پاتے رہے اور آپ اس مسجد کے اصلی سخنور تھے یہاں تک کہ مسجد جواد اور اس کے بعد"امام باڑہ ارشاد" کو بند کردیا گیا اور اس روح پاک کو ایک بارپھر گرفتار کرکے کچھ مدت کے لیے جیل بھیج دیا گیا ۔
لیکن سمندر کی طغیانی کسی کے روکنے سے کبھی رکی ہے کہ جو اس بار رکتی ، جیل سے آزاد ہوتے ہی آپ نے تبلیغ اور تقریر کے سلسلے کو مسجد جاوید اور مسجد ارک وغیرہ میں شروع کر دیا ،کچھ عرصے کے بعد اس مسجد کو بھی بند کر دیا گیا اور شہید مطہری کی تقریر پر پابندی عائد کر دی گئی جس کا سلسلہ انقلاب کی کامیابی تک چلتا رہا ۔
اہم ترین خدمت
پوری زندگی میں شہید مطہری کی اہم ترین خدمت درس تقریر اور تالیف کتاب کے قالب میں بنیادی اسلامی عقاید اور آیڈیالوجی کی تبلیغ تھی ، اور یہ کام اس وقت انجام پایا کہ جب1973 سے لے کر1979 تک کے دوران بائیں بازو کے گروہوں کی تبلیغات کی بھرمار اور منحرف اور التقاطی گروہوں کے وجود میں آنے کا دور تھا ۔امام خمینی کے علاوہ شہید مطہری واحد وہ شخصیت تھی جس نے ،مجاہدین خلق ایران کے سرداروں کے خطر ناک ہونے کو بھانپ لیا تھا اور کوشش کی تھی کہ دوسروں کو اس گروہ کے ساتھ تعاون کرنے سے روکا جائے اور آپ نے ان کی آیڈیالوجی کے بدل جانے اور انحراف پذیر ہو جانے کی پیشین گوئی بھی کر دی تھی ۔
حوزہ علمیہ قم میں تدریس
اس عرصے میں امام خمینی کے حکم سے آپ نے حوزہ علمیہ قم میں اہم ترین دروس کی تدریس کا کام شروع کیا اس کے لیے آپ ہفتے میں دو بار قم جاتے تھے ،اور اس کے ساتھ ہی تہران میں بھی اپنے گھر اور دیگر مقامات پر تدریس کے فرائض انجام دیتے تھے ۔
سال1977 میں آپ کو وقت سے پہلے ریٹائر کر دیا گیا ۔ ان برسوں میں استاد نے کچھ علماء کے ساتھ مل کر ، جامعہء روحانیت مبارز تہران کی بنیاد رکھی اس امید کے ساتھ کہ دیگر شہروں کے علماء بھی با تدریج ایسی ہی تحریکوں کو جنم دیں گے ۔
امام خمینی کے ساتھ آپ کا رابطہ امام کو جلا وطن کر دیے جانے کے باوجود بھی خطوط وغیرہ کے ذریعے جاری رہا لیکن اس کے باوجود سال1977 میں آپ کو نجف اشرف کا سفر کرنے میں کامیابی ملی اور امام کے ساتھ ملاقات کا شرف حاصل کرنے کے ساتھ ،آپ کو تحریک کے اہم ترین مسائل اور حوزہء علمیہ کے بارے میں کسب فیض کرنے کا موقعہ نصیب ہوا ،مصطفی خمینی کی شہادت اور اسلامی تحریک کے جدید دور کے آغاز کے بعد ،استاد مطہری ہمہ تن تحریک کی خدمت میں مشغول ہو گئے اور انقلاب کی اس تحریک کے تمام مراحل میں آپ نے بنیادی کردار ادا کیا ،اسی سفر میں امام نے آپ کو شورائے انقلاب کی تشکیل کا حکم دیا ۔ امام خمینی کی ایران واپسی کے دوران امام کے استقبال کی کمیٹی کی سر براہی آپ کے کاندھوں پر تھی ،خلاصہ انقلاب کی کامیابی تک اور اس کے بعد آپ لگاتار اسلام کے اس عظیم الشان رہبر کے ساتھ رہے آپ کے دلسوز مشاور کی ذمہ داری نبھائی اور ہمشہ امام خمینی کا اعتماد آپ کو حاصل رہا ۔
شہادت
آپ کی شہادت12 اردیبہشت ۱۳۵۸ ہجری شمسی مطابق 2 مئی 1979ء میں اس وقت ہوئی کہ جب آپ ایک سیاسی ،فکری اہمیت کے حامل اہم ترین جلسے میں شرکت کر کے باہر نکلے ،تو آپ کے سر میں گولی مار کر آپ کو شہید کر دیا گیا -
خدا کا درود و سلام ہو آپ کی روح پاک اور مطہر پر !