Jun ۱۰, ۲۰۱۸ ۱۵:۲۱ Asia/Tehran
  • جی سیون اجلاس اختلافات کے سائے میں ختم

سات صنعتی ملکوں کے گروپ جی سیون کا سربراہی اجلاس کینیڈا کے شہر کبک کے علاقے لامانیہ میں ختم ہو گیا ہے۔اجلاس کے دوران صدر ٹرمپ کی جانب سے اسٹیل اور المونیئم کی درآمدات پر عائد کی جانے والی ڈیوٹی معاملے میں امریکہ اور چھے دیگر ملکوں کے درمیان اختلافات پوری طرح سے چھائے رہے۔

گروپ سیون کے اجلاس کے بعد جاری ہونے والے بیان میں جہاں مشترکہ مفادات کا ذکر کیا گیا ہے وہیں باہمی اختلافات کا بھی اعتراف کیا گیا ہے۔ اس بیان میں جس پر گروپ سیون کے تمام رکن ملکوں کے سربراہوں نے دستخط کیے ہیں اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ رکن ممالک موسمیاتی تبدیلیوں کے معاملے میں ایک دوسرے کے ساتھ اتفاق رائے تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔
جی سیون کے رکن ملکوں کے بیان میں پروٹیکشن ازم کی پالیسیوں کو آزادانہ تجارت کے عالمی اصولوں کے منافی قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت اور اس کے تدارک کے لیے کوششیں جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے۔
بیان میں آیا ہے کہ جی سیون کے رکن ممالک ایران کے ایٹمی پروگرام کو پرامن باقی رکھنے پر بھی زور دیتے ہیں۔
جی سیون کے رکن ملکوں کی جانب سے ایٹمی معاہدے کی حمایت پر امریکی صدر آگ بگولہ ہو گئے اور انہوں نے ایک بار پھر ایران کے خلاف اپنے فرسودہ دعوؤں کا اعادہ کرتے ہوئے ایران کے ایٹمی پروگرام کو خطرہ قرار دیا۔
انہوں نے دعوی کیا کہ جی سیون ممالک نے اس بات کا عہد کیا کہ وہ ایران کے ایٹمی پروگرام کا راستہ روکے گیں۔ انہوں نے یہ بھی دعوی کیا کہ جی سیون گروپ کے تعاون کے بغیر بھی ایران کی ایٹمی سرگرمیوں پر قابو پالیں گے۔
ٹرمپ نے اپنے ایک ٹوئیٹ میں ایٹمی معاہدے کو اپنے حملوں کا نشانہ بنانے کے علاوہ جی سیون کے ممالک کے بیان سے بھی لاتعلقی کا اعلان کیا اور کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کو انتہائی کمزور اور ناقابل اعتماد شخص قرار دیا۔
کینیڈا کے وزیراعظم نے بھی ٹرمپ کے جواب میں کہا کہ اگر امریکہ نے غیر منصفانہ ٹیکسوں کا سلسلہ جاری رکھا تو انکا ملک کسی بھی جوابی اقدامات کی انجام دہی میں ذرہ برابر بھی تاخیر سے کام نہیں لے گا۔
کینیڈا کے وزیراعظم کے بعد فرانس کے صدر امانوئیل میکرون نے بھی جی سیون ممالک کے اجلاس میں امریکہ کی یکطرفہ پالیسیوں پر کڑی نکتہ چینی کی حتی عالمی سطح پر امریکہ کی تہنائی میں اضافے اور بڑی صنعتی طاقتوں سے دوری کی دھمکی بھی دے ڈالی۔
برطانوی وزیراعظم تھریسیا مئے نے جی سیون اجلاس میں روس کے خلاف پابندیاں باقی رکھنے کے بارے میں رکن ملکوں کے مشترکہ موقف کا خیر مقدم کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جی سیون ممالک ضرورت پڑنے پر روس کے خلاف مزید پابندیاں لگانے پر بھی متفق ہیں۔
روس کی علیحدگی سے پہلے تک یہ گروپ جی ایٹ کہلاتا تھا لیکن سن دو ہزار چودہ میں جزیرہ نمائے کریمیا کے روس کے ساتھ الحاق کے بعد، روس کی رکنیت معطل کر دی گئی تھی اور بعد ازاں روس نے گروپ کو خیرباد کہہ دیا۔
اس وقت جرمنی، امریکہ، فرانس، اٹلی، جاپان، برطانیہ اور کینیڈا جی سیون کے رکن ممالک ہیں۔

ٹیگس