Jun ۲۴, ۲۰۱۹ ۲۱:۲۸ Asia/Tehran
  • ٹرمپ کے ہاتھوں آل سعود کی تذلیل

امریکی صدر ٹرمپ نے ایک بار پھر آل سعود حکمرانوں کی تذلیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کا حق بنتا ہے کہ وہ سعودی عرب جیسے دولت مند ملک سے جتنا زیادہ ممکن ہو پیسہ وصول کرے۔

امریکی صدر ٹرمپ نے این بی سی ٹیلیویژن سے گفتگو کرتے ہوئے پیسے لے کر سعودی عرب کی حفاظت کئے جانے کو مغربی ایشیا میں امریکہ کی فوجی موجودگی کی ایک وجہ بتایا ہے۔انھوں نے کہا کہ ماضی کے برخلاف کہ جب واشنگٹن سعودی عرب کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے کچھ نہیں لیتا تھا اب امریکہ اس تحفظ سے مالی فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے اس انٹرویو میں اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ واشنگٹن، اقتصادی مسائل کی بنا پر علاقے منجملہ یمن میں سعودی عرب کے ہاتھوں ہونے والے قتل عام سے چشم پوشی کرتا ہے۔

ٹرمپ نے اس سے قبل سعودی حکمرانوں کو دودھ دینے والی گائے کہا تھا اور اپنی انتخابی مہم کے دوران تاکید کے ساتھ کہا تھا کہ امریکہ کی حمایت کے بغیر سعودی عرب کا شاہی نظام دو ہفتے بھی باقی نہیں رہ سکتا۔

امریکی صدر کے ہاتھوں آل سعود حکمرانوں کی اس تذلیل کے بعد ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے ایک ٹوئٹ میں لکھا تھا کہ اپنی سلامتی کو اغیار کے سپرد کئے جانے کا انعام اس طرح کی ذلت و رسوائی کے ساتھ ملتا ہے۔

ٹرمپ کا کہنا ہے کہ خلیج فارس کے جنوبی علاقوں کے امریکی اتحادیوں کا مفت سواری کرنے کا دور ختم ہو چکا ہے اور ان ممالک کو اب اپنے تحفظ کے لئے امریکہ کے نہ صرف اخراجات برداشت کرنا ہوں گے بلکہ ان ممالک کو چاہئے کہ امریکہ کے ساتھ ہتھیاروں کے سودے اور تجارتی و اقتصادی معاہدوں کے ذریعے واشنگٹن کو فائدہ بھی پہنچائیں۔

یہ تمام ممالک خاص طور سے سعودی عرب کرائے کی سلامتی کے خواہاں ہیں یعنی ایسی سلامتی جو امریکی تحفظ اور واشنگٹن کو بھاری بھرکم پیسہ و کرایہ ادا کئے جانے کے نتیجے میں حاصل ہو۔

اس سلسلے میں امریکی صدر ٹرمپ نے سعودی ولی عہد بن سلمان سے ٹیلیفون پر گفتگو میں سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کو تحفظ فراہم کئے جانے کے بھاری اخراجات کے بارے میں بات کی اور تاکید کے ساتھ کہا کہ ان ممالک کی حفاظت کے اخراجات، ان ہی ممالک خاص طور سے سعودی عرب کو برداشت کرنا ہوں گے اور سعودی ولی عہد نے بھی ٹرمپ کی اس بات کو تسلیم کر لیا ہے۔

سعودی عرب کی آل سعود حکومت کے لئے امریکی صدر ٹرمپ کی تمام تر حمایت کے باوجود بن سلمان کے حکم پر مخالف صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا مسئلہ اور یمنی عوام کے خلاف جنگ میں جرائم کے ارتکاب کے مسئلے اور اسی طرح سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت بند کئے جانے کے سلسلے میں امریکی کانگریس کا دباؤ مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے اس انٹرویو میں مخالف صحافی جمال خاشقجی کے قتل اور یمن پر سعودی عرب کی جارحیت کے نتائج کے بارے میں کئے جانے والے سوالات کا جواب دینے سے گریز کیا اور اس بات کے بے بنیاد دعوی کر دیا کہ یمن کی موجودہ صورت حال کا ذمہ دار ایران ہے۔

امریکہ کی ٹرمپ حکومت اس کوشش میں ہے کہ خلیج فارس میں ایران سے لاحق خطرات کے جھوٹے بہانے سے اس علاقے کے تمام عرب ملکوں کو امریکہ سے وابستہ کر دے۔

اس سلسلے میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیؤ نے علاقے کا دورہ بھی شروع کیا ہے اور وہ علاقے میں ایران کے خلاف عرب ملکوں کو متحد کرنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔

پومپیؤ نے صاف صاف امریکہ کی پیسہ اور مفاد پرستی کی بات کہی ہے جس کے نتیجے میں انسانی حقوق اور آزادی کے دفاع کے بارے میں امریکہ کے نعروں کی ماہیت بھی خودبخود سامنے آ گئی ہے۔

 

ٹیگس