سینیٹ نے بھی امریکی صدر کے ہاتھ باندھ دییے
Feb ۱۴, ۲۰۲۰ ۱۷:۲۱ Asia/Tehran
امریکی سینیٹ نے بھی ایران کے خلاف صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جنگ کے اختیارات محدود کرنے کی منظوری دے دی ہے۔
ایران کے خلاف جنگ کے اختیارات" کے نام سے موسوم اس قرارداد پر رائے شماری کے دوران امریکی سینیٹ کے پچپن ارکان نے حق میں جبکہ پینتالیس نے مخالفت میں ووٹ دیئے۔
اس قرار داد کی رو سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو کانگریس کی اجازت کے بغیر ایران کے خلاف کسی بھی قسم کے فوجی اقدام کی اجازت نہیں ہوگی۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ دعوی کرتے ہوئے کہ یہ قرار داد ایران کے مقابلے میں کمزوری کی علامت بنے گی، سینیٹ کے ارکان سے اپیل کی تھی کہ وہ اسے مسترد کردیں۔
ایران کے خلاف صدر ٹرمپ کے جنگی اختیارات محدود کرنے کی یہ قرار داد ڈیموکریٹ سینیٹر ٹم کین نے ایوان میں پیش کی تھی۔
اس سے پہلے پہلے تیس جنوری کو امریکی ایوان نمائندگان نے بھی ایسی ہی دوقراردادوں کی منظوری دی تھی۔
امریکی ایوان نمائندگان کی سربراہ نینسی پیلوسی نے صدر کے جنگی اختیارات سے متعلق قراردادوں کی منظوری کے بعد کہا تھا کہ کانگریس کے ارکان کو اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ دشمنی کے حوالے سے صدر ٹرمپ کے فیصلوں کے بارے میں فوری اورٹھوس تشویش لاحق ہے۔
جنرل سلیمانی اور ان کے ساتھیوں پر بزدلانہ حملے کے بعد صدر ٹرمپ کی ایران مخالف دھمکیوں نے امریکی کانگریس کو انتہائی تشویش میں مبتلا کردیا ہے اور جب ہی سے ڈیموکریٹ ارکان ایران کے خلاف جنگ سے متعلق صدر ٹرمپ کے اختیارات محدود کرنے کوشش کر رہے تھے۔
دوسری جانب روزنامہ واشنگٹن پوسٹ نے جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد ایران کی انتقامی کاروائی سے امریکی فوجیوں میں پیدا ہونے والے شدید خوف و ہراس کی اندرونی داستان کا انکشاف کیا ہے۔
واشنگٹن پوسٹ نے ایک امریکی فوجی کے حوالے سے لکھا ہے کہ امریکی فوجیوں میں پائے جانے والے خوف و ہراس میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا ہے۔
امریکی جریدے کے مطابق بغداد ایئر پورٹ کے قریب حملے کے بعد ایک امریکی بحری جہاز یو ایس ایس نورمنڈی کے کمانڈر کرسٹوفر اسٹیون نے اپنے فوجیوں کو یہ پیغام دیا کہ امریکہ نے ایران کے طاقتور ترین فوجی کمانڈر کو قتل کردیا ہے اور اب معلوم نہیں ہے کہ ایران اس پر کس قسم کا ردعمل ظاہر کرے گا لہذا ہمیں ہر طرح کی صورتحال کے لیے تیار رہنا ہوگا۔
یوایس ایس نورمنڈی پر تعینات اسلحہ انچارج ڈیوڈ ریمرز نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا ہے کہ آج تک کسی نے بھی خطرے کی اتنی اونچی سطح کا نہ مشاہدہ کیا ہوگا اور نہ دیکھا ہوگا اور اس کشیدگی کے دوران جو کچھ میرے علم میں آیا وہ یہ ہے یہ خطرات کی سب سے اونچی سطح شمار ہوتی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ دہشت گرد امریکی فوج نے تین جنوری کو بغداد ایئر پورٹ کے قریب بزدلانہ ڈرون حملہ کرکے، دہشت گردی کے خلاف جنگ کی کمانڈ کرنے والے ایران کی قدس فورس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی اورعراق کی عوامی رضاکار فورس حشدالشعبی کے کمانڈر جنرل ابومہدی المہندس کو ان کے آٹھ دیگر ساتھیوں کے ساتھ شہید کردیا تھا۔
ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے آٹھ جنوری کو امریکہ کے دہشت گردانہ اقدام کا جواب دیتے ہوئے عراق کے صوبے الانبار میں قائم امریکی دہشت گرد فوج کے سب سے بڑے اڈے عین الاسد کو میزائل حملوں کا نشانہ بنایا تھا۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ سمیت تمام امریکی عہدیداروں نے "عین الاسد" چھاونی پر ایران کے میزائل حملوں کے بعد دعوی کیا تھا کہ اس حملے میں کوئی بھی امریکی فوجی ہلاک یا زخمی نہیں ہوا۔ لیکن کچھ عرصہ گزرنے کے بعد امریکی وزارت جنگ پینٹاگون نے بتدریج اس بات کا اعتراف کرنا شروع کیا کہ اس کے کچھ فوجی ایران کے حملے میں زخمی ہوئے ہیں اور ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
امریکی ذرائع ابلاغ نے پچھلے چند ہفتوں کے دوران پینٹاگون کے عہدیداروں کے حوالے سے جو اعداد و شمار جاری کیے ہیں ان میں "عین الاسد" چھاونی پر ایران کے میزائل حملے میں پہلے آٹھ، پھر سولہ،اس کے بعد چونتیس، پھر پچاس اور اس کے بعد چونسٹھ امریکی فوجیوں کے زخمی ہونے کا اعلان کیا گیا ہے جبکہ حال ہی میں یہ تعداد بڑھ کر ایک سو نو تک پہنچ گئی ہے۔
اکثر تجزیاتی رپوٹوں کے مطابق "عین الاسد" چھاونی پر ایران کی انتقامی کارروائی میں متعدد امریکی فوجی ہلاک بھی ہوئے ہیں لیکن ٹرمپ انتظامیہ رائے عامہ کے غیظ و غضب سے بچنے اور اپنی ساکھ بچانے کے لیے اس کے اعتراف سے گریزاں ہے۔