صدر ٹرمپ زیر زمین بنکر میں پناہ لینے پر مجبور
امریکا کے کئی شہروں میں کرفیو اور پابندیوں کے باوجود پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام شخص کے قتل کے خلاف احتجاج اور ریلیوں کا سلسلہ جاری ہے۔
تازہ ترین رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ٹرمپ کی رہائش گاہ وائٹ ہاؤس کے باہر مظاہرین اور پولیس میں جھڑپیں جاری ہیں اور پولیس نے مشتعل مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کی شیلنگ کی ہے۔
سفید فام امریکی پولیس افسر کے ہاتھوں سیاہ فام امریکی شہری کے قتل کے خلاف شروع ہونے والے احتجاجی مظاہروں کا دائرہ وائٹ ہاؤس تک پہنچ گیا ہے۔ مظاہرین نے وائٹ ہاؤس کے آس پاس لگے ہوئے درختوں اور عوامی املاک کو آگ لگا دی جبکہ امریکی صدر ٹرمپ اپنے خاندان کے ساتھ بنکر میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
ایک امریکی اخبار کے مطابق وائٹ ہاؤس کے سامنے مظاہرے کے دوران خفیہ سروس کے اہلکاروں نے صدر ٹرمپ کو زیر زمین بنکر میں پہنچا دیا۔ عام طور پر اس طرح کے بنکر میں اس وقت امریکی صدر کو پناہ دینے کا مشورہ دیا جاتا ہے جب کوئی بڑا حملے ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔
دریں اثنا امریکی ریاست آریزونا کے گورنر ڈوگ ڈوسی نے ریاست میں شدید احتجاجی مظاہروں کے باعث رات کا کرفیو نافذ کر دیا ہے۔
ریاست کیلی فورنیا کے گورنر گووین نیوسام نے بھی ریاست کے شہر لس آنجلس میں احتجاجی مظاہروں اور بدامنی بڑھنے کے بعد شہر میں ہنگامی حالت کا اعلان کردیا۔ ریاست کیلیفورنیا کے شہر سن فرانسیسکو کے میئر نے بھی اس شہر میں احتجاج بڑھنے کے بعد رات کا کرفیو لگادیا ہے۔
ریاست فلوریڈا کے حکام نے بھی احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ بڑھنے کے بعد اتوار کی رات دس بجے سے پیر کی صبح پانچ بجے تک کرفیو نافذ کردیا۔
ادھر سیاہ فاموں کے خلاف نسلی امتیاز اور تشدد سے مشتعل امریکی مظاہرین نے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی کا ہلیہ ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ سی این این کی رپورٹ کے مطابق شہر کے بیشتر مقامات پر امریکہ میں غلامی کے خاتمے کا اعلان کرنے والے آنجہانی صدر ابراہام لنکن اور دوسری عالمی جنگ سے متعلق یادگاری بینر اور پوسٹر چسپا ہیں جن پر نسلی امتیاز اور پولیس کی بربریت کے خلاف بھی نعرے درج ہیں۔
سی این این کی رپورٹ کے مطابق امریکی نیشنل گارڈ کے ترجمان مائکل ہوک نے اعلان کیا ہے کہ پانچ ریاستوں میں مظاہرین کو کچلنے کے لئے اتوار تک تقریبا پانچ ہزار نیشنل سیکورٹی گارڈ کے جوان سرگرم عمل ہوگئے ہیں جبکہ نیشنل گارڈ کے دو ہزار اہلکاروں کو ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے۔
درایں اثنا امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اتوار کو پورے ملک کے گورنروں اور میئروں کو ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ مظاہرین کے سامنے ڈٹ جائیں اور نیشنل سیکورٹی گارڈ کو مظاہرین کو کچل دینے کا حکم دے دیں۔
ٹرمپ نے اس سے کچھ گھنٹے پہلے بھی اپنے ایک ٹوئیٹ میں ریاست مینے سوٹا کے شہر مینیا پولس میں مظاہرین کے خلاف نیشنل سیکورٹی گارڈ کی پرتشدد کارروائیوں کی حمایت کرتے ہوئے تمام شہروں اور ریاستوں میں مظاہرین کو کچلنے کے لئے طاقت کا استعمال کرنے کی دھمکی دی تھی ۔
دوسری جانب امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر ننسی پلوسی نے ٹرمپ کے اس رویّے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر کو مزید آگ نہیں بھڑکانا چاہئے۔ امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق سیاہ فام شہری جارج فلویڈ کے قتل کے خلاف ملک میں شروع ہونے والے احتجاجی مظاہروں کی لہر کم سے کم تیس شہروں تک پھیل چکی ہے۔
درایں اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق امریکہ کے مختلف علاقوں میں ہونے والے مظاہروں کے دوران اب تک چار ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ گرفتار ہونے والوں میں سے زیادہ تر کا تعلق لاس اینجلس سے ہے اور اُن پر کرفیو کی خلاف ورزی کرنے اور املاک کو نقصان پہنچانے کے الزامات عائد کئے گئے ہیں۔
یاد رہے کہ امریکہ میں ایک سفید فام پولیس افسر نے گزشتہ پیر کو مینیا پولس شہر میں جارج فلویڈ نامی ایک سیاہ فام امریکی شہری کو ہولناک طریقے سے قتل کر دیا تھا۔اس جارحانہ اقدام کے خلاف امریکہ کے مختلف شہروں میں زبردست مظاہرے ہو رہے ہیں تاہم امریکی پولیس اور سیکورٹی اہلکار مظاہرین کو سختی سے کچل رہے ہیں۔
سیاٹل سے نیویارک تک ہزاروں افراد نے مارچ کیا، مظاہرین رکاوٹیں اور جنگلے گرا کر وائٹ ہاؤس کے قریب پہنچ گئے۔ امریکی دارالحکومت میں رات کا کرفیو لگا دیا گیا۔
واشنگٹن ڈی سی میں رات گیارہ بجے سے صبح چھے بجے تک کرفیو رہے گا۔ ہفتے کی رات پولیس پر حملے، ہنگاموں، جلاؤ گھیراؤ کے بعد پندرہ ریاستوں میں نیشنل گارڈز کی گشت جاری ہے۔
پرتشدد مظاہروں کے دوران واشنگٹن میں گیارہ اور نیویارک میں تیس پولیس اہلکار زخمی ہوئے جبکہ میامی میں کرفیو کے باوجود لوٹ مار کی گئی۔
مشتعل مظاہرین کے بڑھتے فسادات پر قابو پانے کے لیے پندرہ ریاستوں میں پانچ ہزار نیشنل گارڈ تعینات کردیے ہیں۔
یاد رہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے ایک بیان میں وائٹ ہاؤس کے باہر مظاہرہ کرنے والے افراد پر کتے چھوڑنے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو یہ نہیں کہیں گے کہ مظاہرین کو گولی ماردیں لیکن میں انہیں تجویز دوں گا کہ پرتشد د مظاہرے کرنے والوں پر خونخوار کتے چھوڑ دیے جائیں۔
ادھرسفید فام امریکی پولیس اہلکار کے ہاتھوں سیاہ فام امریکی شہری جارج فلائیڈ کے قتل پر مظاہروں کا سلسلہ برطانیہ تک جا پہنچا۔ سیاہ فام افریقن امریکیوں سے اظہارِ یک جہتی کے لیے لندن کی سڑکوں پر مارچ کیا گیا۔
علاوہ ازیں برطانیہ کے بڑے شہروں برمنگھم، مانچسٹر، کارڈف اور گلاسگو میں بھی مظاہروں کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔
واضح رہے کہ چند روز قبل امریکی ریاست مینی سوٹا میں ایک سفید فام پولیس افسر نے سیاہ فام شہری کو گرفتار کرتے ہوئے اسے بہیمانہ طور پر قتل کر دیا تھا۔
واقعے کی ویڈیو منظرعام پر آنے کے بعد امریکا میں مظاہرے پھوٹ پڑے تھے جس کا دائرہ ریاست مینی سوٹا سے نکل کر دوسری ریاستوں حتی برطانیہ تک پھیل گیا ہے۔