امریکی خفیہ ادارے نے اعتراف کیا تو امریکی سینیٹر نے ٹرمپ کو نسل پرست اور دھوکے باز کہا
امریکہ کے خفیہ ادارے نے وائٹ ہاؤس کے سامنے نسل پرستی کے خلاف پُر امن مظاہرہ کرنے والوں پر سی ایس گیس اور مرچوں کا اسپرے استعمال نہ کرنے کا دعوی واپس لے لیا ہے۔
ہل نیوز کے مطابق امریکی خفیہ سروس کے جاری کردہ بیان میں پچھلے بیان کی اصلاح کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ خفیہ سروس کے ایک اہلکار نے یکم جون کو واشنگٹن کے لافی ایٹ اسکوائر کی سیکورٹی کو یقینی بنانے کے لیے مرچوں کے اسپرے کا استعمال کیا تھا۔
امریکی خفیہ سروس اور پارک پولیس کا یہ بیان ایسے وقت کہ سامنے آیا ہے کہ جب وہ اس سے قبل مظاہرین کے خلاف طاقت کے بے جا استعمال سے متعلق میڈیا رپوٹوں کو مسترد کر چکی ہے۔
ٹرمپ کے سینٹ جونز کلیسا کے دورے اور فوٹو سیشن کو یقینی بنانے کی غرض سے لافی ایٹ اسکوائر کے قریب مظاہرین کی سرکوبی کا معاملہ ان دنوں شدت اختیار کر گیا ہے۔ اس معاملے کی سنگینی اس قدر زیادہ ہے کہ امریکی فوج کے چیف آف اسٹاف جنرل مارک ملی نے سینٹ جونز کلیسا کے دورے میں ٹرمپ کے ساتھ جانے پر قوم سے معافی مانگی ہے۔ اپنے ایک ویڈیو میں نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی کے ارکان سے خطاب کرتے ہوئے جنرل مارک ملی کا کہنا تھا کہ یکم جون کو واشنگٹن میں سینٹ جونز کلیسا کی جانب ٹرمپ کے ساتھ چہل قدمی کرنا ان کی بہت بڑی غلطی تھی۔
دوسری جانب سینیٹر برنی سینڈرز نے صدر ٹرمپ کے اس بیان کو نسل پرستانہ قرار دیا ہے جس میں انہوں نے ملزم کی گرفتاری کے دوران گردن پر دباؤ کی ٹیکنک کے استعمال کو ضروری قرار دیا ہے۔ برنی سینڈرز کا کہنا تھا کہ جناب صدر، گردن پر دباؤ کا حربہ زیادہ اچھا اور غیر محفوظ نہیں ہے۔
سینڈرز نے ٹرمپ کو نسل پرست اور ایسا دھوکہ باز سیاستداں قرار دیا جو معاشرے میں تشدد کو فروغ دے رہا ہے۔ آئندہ صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کے ڈیموکریٹ رقیب جو بائیڈن نے بھی اپنے ایک ٹوئٹ میں ملزمان کی گرفتاری کے وقت گردن پر دباؤ کی ٹیکنک استعمال کرنے پر فوری پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعے کے روز فاکس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ گردن پر دباؤ کے حربے کے استعمال کا تعلق موقع اور محل سے ہے اور بعض اوقات ضروری ہوتا ہے۔
یاد رہے کہ سفید فام پولیس افسر ڈریک شوون نے پچیس مئی کو نو منٹ تک اپنے گھٹنے سے گردن دبا کر ایک سیاہ فام امریکی شہری جارج فلوئیڈ کو قتل کر دیا تھا۔ سفید فام پولیس افسر کے اس وحشیانہ اقدام کے خلاف پورے امریکہ میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے اور جگہ جگہ پولیس کی نسل پرستی کے خلاف مظاہرے کیے جارہے ہیں جن کا دائرہ امریکہ کی سبھی پچاس ریاستوں میں پھیل گیا ہے۔ملک گیر احتجاج میں شدت کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نسل پرستی کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کو بارہا تشدد کا حامی، بلوائی اور دہشت گرد قرار دیا ہے۔
درایں اثنا اطلاعات ہیں کہ ایٹلانٹا پولیس چیف ایریکا شیلڈز نے، اپنے ماتحت پولیس اہلکار کے ہاتھوں ایک اور سپاہ فام نوجوان کے قتل کے بعد اپنے عہدے سے استعفی دے دیا ہے۔ ہل نیوز کے مطابق ایٹلانٹا سٹی کی میئر کیشا لانس باٹمز نے ایک پریس کانفرنس کے دوران پولیس چیف کے استعفے کی تصدیق کرتے ہوئے، سیاہ فام نوجوان کو قتل کرنے والے پولیس اہلکار کی برطرفی کا مطالبہ کیا ہے۔
گزشتہ شب ایٹلانٹا پولیس نے ایک رستوران کے احاطے میں کار پارکنگ کے دوران ایک سیاہ فام نوجوان کی ہلاکت کی خبر جاری کی تھی۔ اس واقعے کی فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ دو پولیس اہلکار ایک سیاہ فام نوجوانوں کے ساتھ الجھے ہوئے ہیں اور اسے گرفتار کرنے میں ناکامی پر ایک اہلکار برقی بندوق سے فائر کرتا ہے جس سے نوجوان کی موت واقع ہو جاتی ہے۔