Sep ۰۴, ۲۰۲۰ ۱۸:۰۴ Asia/Tehran
  • ایک اور سیاہ فام کا قتل، امریکی پولیس کے خلاف مظاہروں میں شدت

واشنگٹن میں پولیس کی فائرنگ میں ایک اور سیاہ فام کی ہلاکت کے بعد امریکہ کے دارالحکومت اور متعدد دوسرے شہروں میں نسل پرستی کے خلاف مظاہرے شدت اختیار کر گئے ہیں۔

میڈیا رپورٹوں کے مطابق واشنگٹن ڈی سی پولیس نے شہر کے جنوب مشرقی علاقے میں ایک سیاہ فام نوجوان پر ہلاکت خیز فائرنگ کی ایسی مخصوص فوٹیج جاری کی ہیں جو پولیس وردی میں نصب مائیکرو کیمرے کی مدد سے لی گئیں تھیں۔ یہ ہولناک فوٹیج سامنے آنے کے بعد واشنگٹن ڈی سی میں احتجاج کا نیا سلسلہ شروع ہوگیا ہے اور لوگوں نے پولیس اسٹیشنوں اور میئر کی رہائش گاہ کے  سامنے مظاہرے کیے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ شہر کے مختلف پولیس اسٹیشنوں کے باہر جمع ہونے والے مظاہرین اور پولیس اہلکاروں میں جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔

دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نسل پرستی کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کو ایک بار پھر اوباش اور دہشت گرد قرار دیا ہے۔ نیوز ایجنسی رائٹرز کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ریاست کیلی فورنیا کے شہر لاٹروب پہنچنے پر جہاں صدارتی انتخابات میں اپنے حریف جو بائیڈن پر لفظی حملے کیے وہیں ملک بھر میں نسل پرستی کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کو ایک بار پھر اوباش کہہ کر مخاطب کیا۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ حالیہ مظاہروں اور ہنگاموں کے درمیان چار سو افراد کو گرفتار کیا گیا ہے   اور ان سب کے خلاف مقدمہ چلایا جائے گا۔

ٹرمپ نے اس سے پہلے اپنے ایک ٹوئٹ میں دعوی کیا تھا کہ نیویارک، واشنگٹن ڈی سی، سیاٹل اور پورٹ لینڈ کے شہری حکام غیر قانونی مظاہروں کی اجازت دے رہے ہیں، لہذا وفاقی حکومت نے ان شہروں کو بجٹ کی فراہمی بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔درایں اثنا واشنگٹن پوسٹ نے  اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ امریکی حکام کے دعووں کے برخلاف ملک میں نسل پرستی کے خلاف ہونے والے نوے فی صد سے زیادہ مظاہرے پرامن رہے ہیں۔ اخبار نے جمعرات کو جاری ہونے والی ایک سرکاری رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ چند ایک مظاہروں اور پولیس کے تشدد آمیز اقدامات کے سوا رواں سال موسم گرما میں ہونے والے نوے فیصد سے زیادہ مظاہرے پر امن طریقے سے ختم ہوئے۔اخبار کے مطابق مذکورہ اعداد شمار مسلح جھڑپوں کے اعداد و شمار جمع کرنے والے ادارے اے سی ایل ای ڈی نے جاری کیے ہیں جن کے مطابق چھبیس مئی سے بائیس اگست تک ملک بھر میں نسل پرستی کے خلاف سات ہزار سات سو پچاس  سے زائد مظاہرے کیے گئے۔ پچھلے چند ہفتوں کے دوران امریکہ میں نسل پرستی اور پولیس کے تشدد کے خلاف  ہونے والے مظاہروں کے دوران ہزاروں افراد زخمی اور گرفتار کیے گئے ہیں۔

امریکہ کے مختلف شہروں میں پچیس مئی سے پولیس کے نسل پرستانہ رویئے کے خلاف احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ پچیس مئی کو ریاست منے سوٹا کے شہر منیاپولیس میں ایک سفید فام پولیس افسر نے  ایک سیاہ فام شہری کو گھٹنے سے گردن دبا کر قتل کردیا تھا۔اس ہولناک واقعے کا ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد امریکی عوام میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی تھی اور ملک گیر مظاہرے شروع ہوئے تھے جو تاحال جاری ہیں۔ صدر ٹرمپ نے پولیس اور سیکورٹی اداروں کو نسل پرستی کے خلاف جاری مظاہروں کو سختی سے دبانے کا حکم دیا ہے۔

ٹیگس