امریکہ میں اومیکرون کا حملہ شدت اختیار کرگیا
امریکی ماہرین نے اعتراف کیا ہے کہ نیا کورونا ویرینٹ اومیکرون ، ملک بھر میں پھیل گیا ہے جبکہ حکومت کی بدانتظامی کے سبب سے ملک بھر کی سپرمارکیٹیں ضروری اشیا سے خالی ہوگئی ہیں۔
رپورٹوں کے مطابق، امریکہ میں کورونا کی نئی لہر میں شدت کے پیش نظر متعدد شہروں میں اشیائے صرف کی قلت پیدا ہوگئی ہے اور سیکڑوں سپرمارکیٹوں کے شیلف گوشت، پھل فروٹ اور حفظان صحت کی چیزوں سے خالی پڑے ہیں۔
اومیکرون کے بڑھتے ہوئے معاملات کی وجہ سے غذائی اشیا کی تقسیم کا نظام بری طرح متاثر ہوا ہے اور ملازمین کی کمی کی وجہ سے، کارخانوں میں پیداوار کی گنجائش کم ہوجانے کے سبب رسد اور طلب کے درمیان توازن قائم رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔
ایک اور اطلاع یہ ہے کہ شکاگو کے طلبہ نے کورونا کی شدت کو دیکھتے ہوئے اسکول کلاسوں میں شرکت سے انکار کردیا ہے۔ طلبہ کا کہنا ہے کہ وہ کورونا میں مبتلا ہونے کے خطرات کی وجہ سے کلاسوں میں شرکت نہیں کریں گے۔
اس سے پہلے کیلی فورنیا، نیویارک اور میساچوسٹس کے اسکول طلبہ نے بھی گزشتہ ہفتے کلاسوں میں شرکت کرنے سے انکار کیا تھا اور کہا تھا کہ جب تک، کورونا سے بچاؤ کے لازمی اقدامات نہیں کیے جاتے تب تک وہ اسکولوں میں حاضر نہیں ہوں گے۔
ایک ایسے وقت میں جب امریکی حکام دعوی کررہے ہیں کہ اسکولوں کو کورونا کی آلودگی سے پاک کردیا گیا ہے اور طلبہ پورے اطمینان کے ساتھ کلاسوں میں حاضری دے سکتے ہیں، اسکول ملازمین نے اس دعوے کو کذب محض قرار دیا ہے۔
امریکہ کے اسکول اس وقت کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا مرکز بنے ہوئے ہیں اور اعداد و شمار کے مطابق اس وائرس کے نئے مریضوں میں اسکول سے تعلق رکھنے والے افراد کا تناسب اکتالیس فی صد تک پہنچ گیا ہے۔ اسکولوں میں حاضری کے مخالف طلبہ کی ان کے والدین اور اساتذہ نے حمایت کی ہے۔
اگرچہ کورونا ویکسین کی سب سے زیادہ مقدار امریکہ کے پاس ہے اور اس نے ویکسینیشن مہم بھی چلارکھی ہے لیکن کورونا میں مبتلا اور اس سے مرنے والوں کی سب سے زیادہ تعداد بھی امریکہ میں ہے۔ کورونا کی نئی قسم اومیکرون کا پھیلاؤ بھی امریکہ میں زیادہ بتایا جاتا ہے۔
دوسری طرف بعض یورپی ملکوں میں کورونا کی نئی لہر کے پیش نظر پابندیاں سخت کئے جانے کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ کورونا کی نئی لہر کی شدت امریکہ کے بعد یورپی ملکوں میں ہی پائی جاتی ہے۔