امریکی اور یورپی عہدیداروں کا ایٹمی معاہدے سے متعلق بڑا بیان
امریکہ اور یورپ کے چالیس سابق عہدیداروں اور ایٹمی ماہرین پر مشتمل گروپ نے ایٹمی معاہدے میں امریکہ کی واپسی کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
روزنامہ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق، سابق امریکی اور یورپی عہدیداروں اور سرکردہ ایٹمی ماہرین پر مشتمل چالیس رکنی گروپ نے اپنے مشترکہ بیان میں بائیڈن انتظامیہ پر زور دیا ہے کہ وہ ایٹمی معاہدے میں واپسی کی غرض سے ایران کے ساتھ جاری مذاکرات کو کامیابی کے ساتھ مکمل کرے۔
ستائیس دسمبر دوہزار اکیس کو پابندیوں کے خاتمے کے لیے شروع ہونے والا مذاکرات کا آٹھواں دور یورپی یونین کے امور خارجہ کے سربراہ جوزف بورل کی تجویز پر گیارہ مارچ دوہزار بائیس کو ضروری سیاسی صلاح و مشورے کےلیے روک دیا گیا تھا اور مذاکراتی وفود اپنے اپنے ملکوں کو واپس لوٹ گئے تھے۔
اس وقت سے اب تک تمام فریق، مذاکرات میں پیش رفت اور اختلافات میں کمی کی بات کرتے آئے ہیں، لیکن لازمی ضمانتوں کی فراہمی اور پابندیوں اور پابندیوں کی فہرستوں سے ایران کے سرکاری اور پرائیوٹ عہدیداروں کا اخراج ایسے معاملات ہیں جن کے حل کے لیے، ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والے ملک کی حیثت سے امریکہ، تاحال کوئی سیاسی فیصلہ نہیں کرسکا ہے۔
روزنامہ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق، سابق امریکی اور یورپی عہدیداروں اور ایٹمی ماہرین کے مذکورہ گروپ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کا، ایران اور بڑی طاقتوں کے درمیان ہونے والے ایٹمی معاہدے سے سن دوہزار اٹھارہ میں علیحدگی سے متعلق ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسی کو تبدیل نہ کرنا غیر ذمہ دارانہ ہے۔
اس بیان میں، جوجمعرات کو رسمی طور پر جاری کیا گیا ہے مذکورہ ماہرین نے دعوی کیا ہے کہ اگر موجودہ امریکی حکومت نے ٹرمپ دور کی پالیسی کو تبدیل نہ کیا تو، ایران کے ایٹم بنانے کے راستے پر نکل جانے کے خطرات میں اضافہ ہوگا۔
مذکورہ سابق امریکی اور یورپی ماہرین نے دعوی کیا ہے کہ واشنگٹن کی جانب سے ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی کے باعث تہران ایٹم بم بنانے کے لیے ضروری یورینیم کی افزودگی سے صرف ایک یا دوہفتے کے فاصلے پر ہے۔ یہ دعوی ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب خود امریکی انٹیلی جینس ادارے اس امر کی ہرگز تصدیق نہیں کررہے ہیں کہ ایران ایٹم بنانے سے محض ایک یا دوہفتے کے فاصلے پر ہے۔
اس رپورٹ میں، ایٹمی معاہدے سے امریکہ کی علیحدگی اور ٹرمپ انتظامیہ کی زیادہ سے زیادہ دباؤکی پالیسی کی ناکامی نیز ویانا مذاکرات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ تمام مذاکرتی وفود انتہائی بداعتمادی کے ماحول میں دوہزار پندرہ کے ایٹمی معاہدے کی بحالی کے سمجھوتے تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔