یوکرین جنگ کے نتائج آئندہ سو برسوں تک باقی رہیں گے: جرمن چانسلر
جرمن چانسلر نے یورپ کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس جنگ کے نتائج آئندہ سو برسوں سے تک برقرار رہیں گے۔
جرمن چانسلر اولاف شولٹس نے برلین میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یوکرین جنگ کا موازنہ دوسری عالمی جنگ میں اپنے ملک کی صورت حال سے کیا۔ انہوں نےکہا کہ جو لوگ جرمنی میں زندگی بسر کررہے ہیں انہیں بخوبی معلوم ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بم اب بھی مل رہے ہیں اور انہیں ڈسپوز کیا جا رہا ہے جبکہ ان بموں کے کسی بھی وقت پھٹنے کا خطرہ بدستور موجود ہے۔
جرمن چانسلر نے خبردار کیا کہ یوکرین کو جنگ کے اثرات کا مقابلہ کرنے کے لئے اب سو برس تک جدوجہد کرنا پڑے گی۔ انہوں نے جنگ کے بعد یوکرین کی تعمیرنو کے لئے مغربی ملکوں سے تعاون کی بھی اپیل کی۔
جنگ یوکرین کے نتیجے میں اس وقت پوری دنیا میں کھانے پینے کی چیزوں، تیل گیس اور ابتدائی ضرورت کی دیگر اشیاء کی قیمتیں بڑھ چکی ہیں۔ تازہ ترین رپورٹوں کے مطابق اس وقت یوکرین کے ایک کروڑ تینتیس لاکھ افراد دربدر ہوچکے ہیں جن میں سے پچاس لاکھ افراد ملک سے باہر پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں جبکہ باقی افراد ملک کے دیگر حصوں میں در بدر ہیں۔
درایں اثنا روس کے ایک علاقے کے گورنر نے یوکرین کی گولہ باری میں چار روسی شہریوں کے ہلاک یا زخمی ہونے کی خبر دی ہے۔ ارنا نے رپورٹ دی ہے کہ بیلگورود علاقے کے کمانڈر نے ٹیلیگرام پر ایک بیان جاری کرکے کہا ہے کہ یوکرین کی گولہ باری کے نتیجے میں ایک شخص ہلاک ہوگیا ہے جبکہ تین زخمی ہوئے ہیں۔
یوکرین جنگ کو ساڑھے تین ماہ گزر چکے ہیں اور لڑائی کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ رپورٹوں کے مطابق ماریوپول اسٹیل فیکٹری سے عام شہریوں کو باہر نکالنے کے بعد سے اس علاقے میں روسی اور یوکرینی فوجیوں کے درمیان گھمسان کی جنگ جاری ہے۔
روسی صدر ولادیمیر پوتین نے اکیس فروری کو ماسکو کی سیکورٹی تشویش پر مغرب کی بےتوجہی پر تنقید کرتے ہوئے دونباس کے علاقے میں دونتسک اور لوہانسک کی خودمختاری کو قانونی طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ ولادیمیر پوتین نے اس کے تین دن بعد یعنی چوبیس فروری سے اپنے بقول یوکرین کے خلاف خصوصی فوجی آپریشن شروع کردیا اور اس طرح ماسکو اور کی ایف کے درمیان کشیدہ تعلقات پوری طرح فوجی مقابلہ آرائی میں تبدیل ہوگئے۔