یورپی ملکوں کو ہوشربا مہنگائی اور افراط زر کا سامنا
یورپی ملکوں میں افراط رز اور مہنگائی میں اضافے کے باعث کو لوگوں پریشانی کا سامنا ہے۔ جائزہ رپورٹوں کے مطابق یورپی ملکوں میں مہنگائی میں اضافے کا رجحان تیزی کے ساتھ جاری ہے۔
روزنامہ ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق پچھلے چند ماہ کے دوران براعظم یورپ کے ملکوں میں افراط زر کی شرح میں دوگنا اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ میں یورپی منڈیوں کے ہفتہ وار جائزے کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ پورے براعظم اور خاص طور سے بلقان ریجن کے ملکوں میں غذائی اشیا کی قیمتوں اور زندگی کے دوسرے اخراجات میں اضافے کا رجحان جاری ہے اور اس میں تیزی دکھائی دے رہی ہے۔
اخبار کے مطابق رواں سال کے دوران یورپی یونین کے نو ملکوں میں افراط زر کی شرح دس فیصد زیادہ رہی ہے جبکہ اسٹونیا میں صورتحال کافی بدتر ہے جہاں افراط زر کی شرح انیس فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
فائنانشل ٹائمز نے اپنی جائزہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ بلغاریہ کو سولہ فیصد سے زیادہ، جمہوریہ چیک اور رومانیہ کو تیرہ فیصد سے زیادہ، لتھووینیا کو تیرہ فیصد، پولینڈ کو دو فیصد سے زیادہ، اور سیلوواکیا کو گیارہ فیصد سے زیادہ افراط زر کا سامنا ہے۔
اس سے پہلے یورپی ذرائع ابلاغ نے، یونان کے محکمۂ شماریات کے جاری کردہ اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس ملک میں افراط زر کی شرح اپریل میں دس فیصد سے تجاوز کر گئی ہے۔
رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ افراط زر کی وجہ سے کینیڈا اور آسٹریا میں روزمرہ کے اخراجات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ کنزیومر پرائس انڈیکس سی پی آئی کے مطابق، دونوں ملکوں میں متوسط طبقے کے اخراجات اب تک کی سب سے اونچی سطح پر پہنچ گئے ہیں۔
کینیڈا کے محکمۂ شماریات کے مطابق انیس سو ننانوے کے بعد سے ملک میں افراط زر کی شرح میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے جس سے پیٹرول کو چھوڑ تمام اشیا کی قیمتیں متاثر ہوئی ہیں۔
آسٹریا کے وفاقی محکمۂ شماریات نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ گزشتہ ماہ اپریل کے دوران اشیائے صرف کی قیمتوں میں سات اعشاریہ دو فیصد کا اضافہ ہوا ہے جو انیس سو اکیاسی کے بعد سے مہنگائی کی سب سے اونچی سطح ہے۔
روزنامہ فائنانشل ٹائمز نے روس یوکرین تنازعے کو یورپی ملکوں میں اشیائے صرف کی قیمتوں اور افراط زر کی شرح میں اضافے کی وجہ قرار دیا ہے۔ تاہم روسی حکام کا کہنا ہے کہ ان کے ملک کے خلاف عائد کی جانے والی اقتصادی پابندیوں کے نتیجے میں ، یورپی ملکوں کو معاشی افراتفری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔