امریکہ اور یوکرین جراثیمی ہتھیار تیار کرنے میں مصروف ہیں: روس
روس کے ایک اعلی عہدیدار نے بتایا ہے کہ امریکہ اپنے لیبوں میں جراثیمی ہتھیاروں پر پابندی کے عالمی کنونشن کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔
روس کی وزارت دفاع کے ایک اعلی عہدیدار جنرل ایگور کریلوف نے کہا ہے کہ امریکہ دوسرے ممالک میں جراثیمی مادے اور ہتھیار تیار کرنے والی تجربہ گاہیں قائم کر رہا ہے جن کا اصل مقصد جراثیمی اسلحے میں کام آنے والے مادوں کی تقویت اور بایولاجیکل ویپنز کنونشن بی ٹی ڈبلیو سی کو مہارت سے نظر انداز کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ روس بارہا امریکی وزارت جنگ، پینٹاگون کے جراثیمی ہتھیاروں اور پس پردہ واشنگٹن کے عزائم کے بارے میں خبردار کرچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں متعدد ثبوت بھی منظر عام پر لائے جاچکے ہیں ۔
جنرل ایگور کریلوف نے کہا کہ جنیوا کنونشن کے اجلاس میں، یوکرین میں امریکی جراثیمی تحقیقات کے ٹھوس شواہد اور دستاویزات کو اس ادارے کے حوالے کردیا گیا ہے۔ کریلوف نے مزید کہا کہ کیف نے یوکرین اور امریکہ کی مشترکہ بایو تجربہ گاہوں میں موجود تحقیقات کے شواہد کو جلدی میں مٹایا ہے اور اب اس بارے میں خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ان تجربہ گاہوں میں خطرناک مادے وافر مقدار میں موجود تھے جنہیں اسٹور کرنے میں سیکیورٹی کے اصولوں کو بھی ملحوظ نہیں رکھا گیا گیا تھا۔ ایگور کریلوف نے بتایا کہ کیف کے حکام اب اس بارے میں بات کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔
روس کی وزارت دفاع کے اعلی عہدیدار جنرل کریلوف نے کہا کہ واشنگٹن اس بات کا اعتراف کر چکا ہے کہ تحقیقات کے دوران کیمیاوی اور جراثیمی مادوں کو یوکرین کے غریب شہریوں اور نفسیاتی بیماروں پر آزمایا گیا ہے ۔ اس سے قبل بھی روس، امریکہ اور یوکرین کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی پر بحث کے لئے جنیوا کنونشن کے رکن ممالک کی ہنگامی نشست کی درخواست پیش کرچکا ہے۔
بی ٹی ڈبلیو سی کے رکن ممالک کی نشست پانچ سے نو ستمبر تک جنیوا میں منعقد ہوئی جس کے دوران یوکرین میں موجود امریکہ کی خفیہ تجربہ گاہوں کے دستاویزی ثبوت پیش کئے گئے۔
یاد رہے کہ روس کی وزارت دفاع نے پہلی بار مارچ دو ہزار بائیس میں اعلان کیا تھا کہ یوکرین کے بایو تجربہ گاہوں کے کارکنوں سے حاصل شدہ دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ کیف نے اس ملک کے فوجی جراثیمی تحقیقات کے تمام شواہد اور آثار کو ہنگامی طور پر مٹانے کی کوشش کی ہے ۔ روسی حکام کے مطابق یہ جراثیمی تحقیقات امریکی وزارت دفاع کے منصوبے کے تحت انجام دی جا رہی تھیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ پنٹاگون کو بھی ان دستاویزات کا پردہ فاش ہونے کی جانب سے تشویش تھی۔