Dec ۱۱, ۲۰۲۲ ۱۳:۰۸ Asia/Tehran

امریکی پولیس ایک نوجوان کو چاقو ساتھ لے کر چلنے کے الزام میں قتل کر کے بھی نائس ہی رہتی ہے لیکن ایک مسلحانہ اقدام کرکے دوسروں کی جان لینے والا اگر ایرانی پولیس یا عدلیہ کے ہاتھوں سزا پا جائے تو یہ دہشتگردی اور انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی کا مصداق قرار پاتا ہے۔

ان دنوں ایک ویڈیو میڈیا اور سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے جس میں ایک امریکی نوجوان کو صرف اس لئے گولی مار دی جاتی ہے کہ وہ ایک چاقو لے کر پولیس کی طرف بڑھ رہا ہے اور اس نے پولیس کے انتباہ پر کان نہیں دھرے۔ امریکی پولیس کے اس رویے پر کسی نے کوئی نکتہ چینی بھی نہیں کی۔

اسکے برخلاف ایران کی ستم ظریفی یہ ہے کہ اگر کسی شہر میں کوئی بلوائی یا شرپسند یا حتیٰ دہشتگرد پستول، بندوق یا چاقو جیسے ہتھیاروں سے کسی پولیس اہلکار، سرکاری ملازم یا نظام اسلامی کے حامی کسی شخص کو قتل بھی کر دے تب بھی اسے پکڑنے اور سزا دینے پر انسانی حقوق کے تمام ٹھیکیدار واویلا مچا دیتے ہیں۔

البتہ یہ ویڈیو کوئی پہلی یا آخری ویڈیو نہیں جو امریکی پولیس کے سلسلے میں سامنے آئی ہے۔ امریکہ میں سالانہ سیکڑوں افراد پولیس کی گولیوں کا نشانہ بن کر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں جن میں سے اکثر سیاہ فام ہوتے ہیں۔

واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں سنہ 2015 سے رواں سال دسمبر کے آغاز تک 8004 افراد کی گولی کا نشانہ بن کر ہلاک ہوئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ 12 مہینوں کے دوران 1094 افراد امریکی پولیس کی گولی کا نشانہ بن کر ہلاک ہوئے ہیں۔

انسانی حقوق اور دہشتگردی کے سلسلے میں مغربی ممالک منجملہ امریکہ کا دوہرا معیار روز روشن کی طرح عیاں ہے مگر کیا کہنا انکے سفید چمڑی اور سنہرے بالوں والے حکام اور عہدے داروں کا، جو ہر دیکھنے والے کو ایسا مرعوب کرتے ہیں کہ وہ انکے ظاہری گیٹ اپ اور جِلدی رنگت کی بنا پر یہ باور کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ واقعی یہ لوگ دودھ کے دھلے محترم اور باوقار لوگ ہیں۔

ٹیگس