طالبان نے اپنی پالیسیوں کو تبدیل کرنے سے انکار کر دیا
اقوام متحدہ کے ایک سینئر عہدیدار نے خبردار کیا ہے کہ ترکی اور شام میں حالیہ تباہ کن زلزلے کے باوجود 2023 میں دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران افغانستان بنا ہوا ہے۔
سحر نیوز/ عالم اسلام: نیویارک میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نائب نمائندہ خصوصی اقوامِ متحدہ اور کوآرڈینیٹر برائے افغانستان رمیز الاکبروف نے کہا ہے کہ لڑکیوں کو کلاس رومز میں واپس لانے کی طرف کوئی حوصلہ افزا پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔
اگست 2021 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے طالبان نے بتدریج اسکولوں سے لڑکیوں اور خواتین کو کام کی جگہوں سے نکال دیا ہے اور بین الاقوامی دباؤ اور اقتصادی پابندیوں کے باوجود اپنی پالیسیوں کو تبدیل کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
رمیز الاکبروف نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی اور معاشی بدحالی نے افغانستان میں بحران کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے جہاں 2 کروڑ 80 لاکھ افراد اب زندہ رہنے کے لیے امداد پر انحصار کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ اور شراکت دار اس سال افغان آبادی کی مدد کے لیے 4 ارب 60 کروڑ ڈالر مانگ رہے ہیں۔
رمیز الاکبروف نے رپورٹ کیا کہ گزشتہ 18 مہینوں کے دوران افغانستان کی مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) میں 35 فیصد تک کمی آئی جبکہ بنیادی خوراک کی قیمت میں 30 فیصد اور بے روزگاری میں 40 فیصد اضافہ ہوا۔
انہوں نے مزید کہا کہ تقریباً 75 فیصد لوگوں کی آمدنی اب صرف کھانے پر خرچ ہوتی ہے۔
تعلیم اور انسانی بنیادوں پر پابندیوں کے حوالے سے طالبان کی قیادت میں اختلافات کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں اقوام متحدہ کے عہدیدار نے کہا کہ اس پر بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے حکام، لڑکیوں کے سیکنڈری اسکول جانے اور خواتین کے مقامی اور بین الاقوامی امدادی اداروں کے ساتھ کام کرنے پر پابندی کے احکامات کے بعد حقیقت میں طالبان حکام کے ساتھ بات چیت جاری رکھے ہوئے ہیں۔