Apr ۲۴, ۲۰۲۳ ۱۱:۴۰ Asia/Tehran
  • ایران اور یمن کے ساتھ سعودی عرب کے معاہدے سے اسرائیل کی نیند اڑ گئی

ایک صیہونی محقق نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ اسرائیل خطے میں اسلامی حلقے میں گھرا ہوا ہے۔

سحر نیوز/ دنیا: انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یمن کی تحریک انصار اللہ اپنی فوجی اور میزائل طاقت کو اسرائیل کے خلاف استعمال کر سکتی ہے۔

اگرچہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی پر رضامندی کو ایک ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے تاہم صیہونی، اسرائیل کے لیے اس معاہدے کے نتائج پر تشویش کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔

اسی تناظر میں اسرائیل انٹرنل سیکیورٹی انسٹی ٹیوٹ کے نام سے مشہور صیہونی تحقیقاتی ادارے کے سیکورٹی آفیسر اور سینئر محقق یھوشے کلیسکی نے ایک مضمون میں خبردار کیا ہے کہ ایران اور پھر یمن کے ساتھ سعودی معاہدہ، خطے میں اسرائیل کے خلاف ایک نیا محاذ کھول سکتا ہے۔

اس صیہونی محقق نے عبرانی والا ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ایک مضمون میں کہا کہ گزشتہ ماہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان چین کی ثالثی سے تعلقات بحال کرنے کا معاہدہ۔ ایران کے لیے ایک سیاسی کامیابی تھی، جو حالیہ عرصے میں اس ملک کی کامیابیوں کے زمرے میں شامل ہو گئی ہيں۔

انہوں نے مزید کہا کہ جب ہم سعودی عرب اور ایران کے درمیان اسرائیل پر ہونے والے معاہدے کے نتائج کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہمیں الحوثیوں (یمن کی تحریک انصار اللہ) پر بھی غور کرنا چاہیے اور یہ مسئلہ بہت اہم ہے۔

اسرائیلی مقالہ نگار لکھتے ہیں کہ جنگ کے ان برسوں میں یمن، سعودی عرب کے خلاف ہر قسم کے بیلسٹک اور کروز میزائلوں اور ڈرونز اور ہر قسم کے فوجی سازوسامان کو داغنے کا اڈہ بن گیا تھا اور اس میدان میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ بھی اس نے کیا تھا۔

اس صیہونی محقق اور تجزیہ نگار نے واضح کیا کہ بلاشبہ تحریک انصار اللہ، ایران کی اتحادی ہونے کے ناطے، حزب اللہ کی طرح اسرائیل کے خلاف جنگ میں ایک اہم عنصر اور اتحادی نہیں سمجھی جاتی ہے لیکن یمنی خاص حالات میں اسرائیل کے اہداف پر حملہ کرنے کے لیے میدان میں اتر سکتے ہیں اور یہ خدشہ ہے کہ انصاراللہ، ایران کے اتحادی کے طور پر اپنی فوجی صلاحیتوں کو اسرائیل کے خلاف استعمال کرے۔

مشہور صیہونی تحقیقاتی ادارے کے سیکورٹی آفیسر اور سینئر محقق یھوشے کلیسکی نے کہا کہ اسرائیل کے خلاف تحریک انصار اللہ کے اقدامات اسٹریٹیجک تنصیبات، ایلات ہوائی اڈے اور اس کے نواحی علاقوں پر حملے اور بحیرہ احمر میں اسرائیلی بحری جہازوں وغیرہ پر حملے کی شکل میں سامنے آ سکتے ہایں جس سے ہندوستان اور مشرق بعید کے ممالک کے ساتھ اسرائیل کی سمندری تجارت کو بڑا دھچکا لگے گا۔

ٹیگس